یوم مزدور : یک مئی مزدوراں د عالمی دن دےطور تے منایا جندھا ہے۔[1] اس دن نوں منانے دا مقصد امریکہ دے شہر شکاگو دے محنت کش مزدورا دی جدوجہد نوں یاد کرنا اے ۔[1][2]
یوم مزدور : یکم مئی مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔[1] اس دن کو منانے کا مقصد امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کویاد کرنا ہے ۔ .[1][2]


آزادی (Independence) ایک قوم، ملک ریاست دی ایک حالت ہے جس وچ اس دے باشندے تےآبادی، دی اس دے کچھ حصے، خود حکومت دیااستعمال، اور زیادہ تر علاقے تے عام طور تےخود مختاری ہوے
آزادی (Independence) ایک قوم، ملک یا ریاست کی ایک حالت ہے جس میں اس کے باشندے اور آبادی، یا اس کے کچھ حصے، خود حکومت کا استعمال، اور زیادہ تر علاقے پر عام طور پر خود مختاری ہو۔

فہرست قومی یوم آزادی انسان دے اپنے نفس تےاپنے معاملات دے اپنی مرضی دے مطابق تصرف کرنے دی اختیار حاصل س طور تے کہ اس دی اس دے کویئ معارض نہ ہووے
فہرست قومی یوم آزادی انسان کو اپنے نفس اور اپنے معاملات میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرنے کا اختیار حاصل ہونا اس طور پر کہ اسمیں اسکا کویئ معارض نہ ہو۔

ڈاکٹر امجد ایوب مرزا پاکستان وچ بائیں بازو دی تحریک دا رہنما، دانشور تے سیاسی کارکن ۓ
ڈاکٹر امجد ایوب مرزا پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک کے رہنما، دانشور اور سیاسی کارکن ہیں۔

سید سجاد ظہیر (1904- 1973) پاکستان دے نامور اردو ادیب، انقلابی اور مارکسی دانشور سی
سید سجاد ظہیر (1904- 1973) پاکستان کے نامور اردو ادیب، انقلابی اور مارکسی دانشور تھے۔

نومبر 5، 1905 نوں ریاست اودھ دے چیف جسٹس سر وزیر خاں دے گھر پیدا ہوئے۔ لکھنؤ یونیورسٹیتوں ادب پڑھنےدے بعد والد دےنقش قدم تے چلدے ہوئے انہاں نیں برطانیہ جاک آکسفورڈ یونیورسٹی وچ قانون دی تعلیم حاصل کرنی شروع کر دتی تے بیرسٹر بن کے واپس آے۔ اتھے انہاں نے قانون دے نال ادب دا وی مطالعہ کیتا.
نومبر 5، 1905 کو ریاست اودھ کے چیف جسٹس سر وزیر خاں کے گھر پیدا ہوئے۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے ادب پڑھنے کے بعد والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے برطانیہ جاکر آکسفورڈ یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور بیرسٹر بن کر لوٹے۔ یہاں انہوں نے قانون کے ساتھ ادب کا بھی مطالعہ کیا۔

اک قومی علامت (انگریزی: national symbol) کسی وی گروہ دی اظہار دی اک صورت ہودی ے جس تو آپنے آپ نو دنیا دے سامنے پیش کردی ے خودمختار ریاستوں عونا واسطہ قومیں تے ممالک دی نوی آبادیاتی یا اک دوجے تے انحصار کرں آلے ، (باہم) وفاقی انہضام، آیتہ تک کہ نسلی و ثقافتی برادری دی قومیت سمجھا جاندے اے جو کوئی سیاسی اپیؤ مختاری نہیں رندے [1] ۔
ایک قومی علامت (انگریزی: national symbol) کسی بھی گروہ کی اظہار کی ایک صورت ہوتی ہے جس سے وہ خود کو دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے۔ خودمختار ریاستوں لیکن قومیں اور ممالک بھی نوآبادیاتی یا ایک دوسرے پر انحصار کرنے والے، (باہم) وفاقی انہضام، یہاں تک کہ نسلی و ثقافتی برادری کو بھی قومیت سمجھا جاتا ہے جو کوئی سیاسی خود مختاری نہیں رکھتے[1] ۔

قوم دے رنگ عام طور تے کسی ملک دی قومی علامات دا حصہ ھوندا ۓ ۔ کیہ ممالک تے ریاستاں نے اک یا دو رنگوں تو قومی رنگ یا ریاستی طور تے اپنا واسطے هوندا نے۔ اے رنگ اکثر استعمال مقبولیت دے وجہ توں اے حیثیت اختیار کردے نے ۔ قوم دے رنگ اکثر ذرائع ابلاغ تے کھیلوں صیا کدیی ملکی دی ٹیم نو شناخت دین واسطے استعمال ہوندے نے۔
قومی رنگ عام طور پر کسی ملک کی قومی علامات کا حصہ ہوتا ہے۔ کئی ممالک اور ریاستوں نے ایک یا دو رنگوں کو قومی رنگ یا ریاستی کے طور پر اپنا لیا ہے۔ یہ رنگ کثرت استعمال و مقبولیت کی وجہ سے یہ حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ قومی رنگ اکثر ذرائع ابلاغ اور کھیلوں میں کسی ملکی کی ٹیم کو شناخت دینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

قوم دے رنگ
قومی رنگ

عقاب نامی پرندے دیا کئی کسما پائی جدیا نے۔ اے لازمی نہیں اک دوسرے واسطے مماثل ہو۔ افریقہ تے یوریشیا دے عقبہ دیاں 60 تو زیادہ کسما پائییا جدانیا نے۔ کییا لقیا تے ریاستا نے۔امریکہ تے کینیڈا دے محض دو کسما پائیا جاندیا نے ۔ وسطی جنوبی امریکہ تے مزید 9 کسما پائیا جدانیا نے۔ آسٹریلیا دیا 3 کسماملدیا نے۔ عقاب مسلماناں دے نزدیک بری اہمیت دا حامل پرنده ۓ۔ مسلمان اس دی لپک جھپک، تیز نگاه، پروقار تے بارعب اڑان تے اوچی پرواز دی مثلا کسما دیددنے تے عقاب جیا بنن دی ترغیب دیددنے۔ مسلمان شعراء باقاعدہ تے تشبیهی نظمیں تحریر کرتے ہیں۔ عقاب دی انوکھی صفت اے وے کہ اے پرنده بری چھاتی سکھانے تے سکھ جاندا ۓ۔ اور مالک نال پوری وفاداری نبدیا ۓ۔ برصغیر تے مسلمانوں نے برطانوی سامراج دے خلاف مسلمانوں نو ایندا حق آزادی حاصل کرن واسطے ابھارنے الے شاعر انقلاب [ڈاکٹر علامه محمد اقبال ]جز به آزادی ابھارنے واسطے عقاب دی زندگی دا سهارا لیا. بالآخر[14 اگست, 1947ء] آزاد اسلامی ملک پاکستان نو مل گیا. اک ھور مسلم پاکستانی شاعر دا ہمت تے اک برا ہی مقبول شعر به نسبت عقاب تے که; تندئ بادمخالف تے نہ گھبرا اے عقاب اے تے چلدی ۓ تنو اوچا اڑنے واسطے۔
عقاب نامی پرندے کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں جو لازمی نہیں کہ ایک دوسرے سے بالکل مماثل ہوں۔ افریقہ اور یوریشیا میں عقابوں کی 60 سے زیادہ اقسام پائی جاتی ہیں۔ دیگر علاقوں میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا میں محض دو اقسام پائی جاتی ہیں۔ وسطی اور جنوبی امریکہ میں مزید 9 اقسام جبکہ آسٹریلیا میں 3 اقسام ملتی ہیں۔ عقاب مسلمانوں کے نزدیک بہت اہمیت کا حامل پرنده ہے۔ مسلمان اس کی لپک جھپک، تیز نگاه، پروقار اور بارعب اڑان اور اونچی پرواز کی مثالیں دیتے اور عقاب جیسا بننے کی ترغیب دیتے ہیں۔ مسلمان شعراء باقاعدہ عقاب سے تشبیهی نظمیں تحریر کرتے ہیں۔ عقاب کی انوکھی صفت یہ ہے کہ یہ پرنده بهت جلد سکھانے سے سیکھ جاتا ہے۔ اور مالک سے مکمل وفاداری نبھاتا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں میں برطانوی سامراج کیخلاف مسلمانوں کو انکا حق آزادی حاصل کرنے کیلیۓ ابھارنے والے شاعر انقلاب ڈاکٹر علامه محمد اقبال نے جذبه آزادی ابھارنے کے لۓ مکمل عقاب کی زندگی کا سهارا لیا. بالآخر 14 اگست, 1947ء آزاد اسلامی ملک پاکستان مل ہی گیا. ایک اور مسلم پاکستانی شاعر کا ہمت پر ایک بهت ہی مقبول شعر به نسبت عقاب سے که; تندئ بادمخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑنے کے لۓ

اپنی جسمانی، طاقت، پاری سر تے چونچ دیگر شکاری پرندوں سےمختلف ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے عقاب کے پروں کی لمبائی نسبتاً زیادہ ہوتی ہے اور چوڑے پر ہوتے ہیں۔ اس کی پرواز زیادہ سیدھی اور تیز ہوتی ہے۔ عقاب کی بعض نسلیں محض نصف کلو وزنی اور 16 انچ لمبی ہوتی ہیں جبکہ کچھ اقسام ساڑھے چھ کلو سے زیادہ وزنی اور 39 انچ لمبی ہوتی ہیں۔ دیگر شکاری پرندوں کی مانند اس کی چونچ مڑی ہوئی ہوتی ہے تاکہ شکار سے گوشت نوچنے میں آسانی ہو۔ ان کی ٹانگیں زیادہ مضبوط اور پنجے نوکیلے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ عقاب کی انتہائی تیز نگاہ اسے بہت فاصلے سے بھی شکار کو دیکھنے میں مدد دیتی ہے۔
اپنی جسامت، طاقت، بھاری سر اور چونچ سے دیگر شکاری پرندوں سےمختلف ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے عقاب کے پروں کی لمبائی نسبتاً زیادہ ہوتی ہے اور چوڑے پر ہوتے ہیں۔ اس کی پرواز زیادہ سیدھی اور تیز ہوتی ہے۔ عقاب کی بعض نسلیں محض نصف کلو وزنی اور 16 انچ لمبی ہوتی ہیں جبکہ کچھ اقسام ساڑھے چھ کلو سے زیادہ وزنی اور 39 انچ لمبی ہوتی ہیں۔ دیگر شکاری پرندوں کی مانند اس کی چونچ مڑی ہوئی ہوتی ہے تاکہ شکار سے گوشت نوچنے میں آسانی ہو۔ ان کی ٹانگیں زیادہ مضبوط اور پنجے نوکیلے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ عقاب کی انتہائی تیز نگاہ اسے بہت فاصلے سے بھی شکار کو دیکھنے میں مدد دیتی ہے۔

جتپاکستانی غزلڑ٩
حورس (Horus) قدیم مصری مذہب میں سب سے پرانا اور سب سے اہم دیوتاوں میں سے ایک ہے۔

محبت دے لفظ [اردو] وچ وی کہنی معنی رہکدا ۓ۔محبت [عام]کسے شہ تے ہو سکدی ۓ۔تے کوئی چکنگی [ہستی] تے وی ہوسکدی ۓ۔عام تے وی ہو سکدی ۓ۔ [زیادہ] ہوں نال اے جان لن دیں دی تک پونچھا سکدی ۓ۔ عنو پیار تے [عشق] وی کندے نے ۔ محبت دیا کئی کسما وچ ۓ۔مسلن [مذہبی پیار]،کسے چنگے رشتے نال پیار،تے [وطن] نال پیار کسے بندے واسطے پیار ۔وغیرہ وغیرہ
محبت کا لفظ اردو میں بھی کئی معانی رکھتا ہے۔ محبت کئی قسموں کی ہو سکتی ہے۔ یہ محبت عام کسی شے سے بھی ہے اور کسی خاص ہستی، شخص یا رشتے سے بھی ہو سکتی ہے۔ یہ معمولی ہو سکتی ہے اور شدید بھی۔ شدید حالت جان دے دینے اور لے لینے کی حد تک ہو سکتی ہے۔ اسے پیار یا عشق بھی کہتے ہیں۔ محبت کی کئی قسمیں ہیں۔ مثلا مذہبی پیار، کسی خاص رشتے سے پیار، حب الوطنی یعنی وطن کے لیے پیار، کسی بندے کے لیے پیار۔ وغیرہ وغیرہ

وسیم اکرم پاکستان دے مایہ گیند باز سی۔کہبھے ہاتہ نال گیند بازی کردا الی دنیا دے سب تو بہتر گیند باز مایاجاندا نے ۔ 3 جون، 1966 نو لاہور، پاکستان وچ پیدا ہوں آلےگیندباز ایک روزہ کرکٹ وچ 500 تو زیادہ وکٹیں لین آلے پہلے کھلاڑی نے ۔ انہوں نے 356 ایک روزہ میچوں وچ 502 وکٹیں لییا۔ وسیم اکرم آج کل کمنٹری کردے نے۔ آج کل انڈین پریمئیر لیگ وچ شاہ رخ خان دی ٹیم کولکتہ نائٹ رائیڈر دے بالر کوچ نے۔
وسیم اکرم پاکستان کے مایہ ناز گیند باز تھے جو بائیں ہاتھ سے گیند بازی کرنے والے دنیا کے سب سے بہتر گیند باز مانے جاتے ہیں۔ 3 جون، 1966 کو لاہور، پاکستان میں پیدا ہونے والے گیند باز ایک روزہ کرکٹ میں 500 سے زیادہ وکٹیں لینے والے پہلے کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے 356 ایک روزہ میچوں میں 502 وکٹیں لیں۔ وسیم اکرم آج کل کمنٹری کرتے ہیں۔ آج کل انڈین پریمئیر لیگ میں شاہ رخ خان کی ٹیم کولکتہ نائٹ رائیڈر کے باولنگ کوچ ہیں۔

وسیم نے کرکٹ کا آغاز 1984 میں پاکستان آٹوموبیلز کارپوریشن سے کھیل کر کیا۔ آپ بعد میں 1988 میں برطانیہ کی کا‎ؤنٹی لینچیسٹر سے کھلنے کے لیے گئے۔ حوالہ جات
وسیم نے کرکٹ کا آغاز 1984 میں پاکستان آٹوموبیلز کارپوریشن سے کھیل کر کیا۔ آپ بعد میں 1988 میں برطانیہ کی کا‎ؤنٹی لینچیسٹر سے کھلنے کے لیے گئے۔

ووسیم نے کرکٹ کا آغاز 1984 میں پاکستان آٹوموبیلز کارپوریشن سے کھیل کر کیا۔ آپ بعد میں 1988 میں برطانیہ کی کا‎ؤنٹی لینچیسٹر سے کھلنے کے لیے گئے۔سیم نے کرکٹ کا آغاز 1984 میں پاکستان آٹوموبیلز کارپوریشن سے کھیل کر کیا۔ آپ بعد میں 1988 میں برطانیہ کی کا‎ؤنٹی لینچیسٹر سے کھلنے کے لیے گئے۔ حوالہ جات
حوالہ جات

پاکستان وچکرکٹ دی تاریخ 1947ء وچ پاکستان دے معرض وجود ان تو شروع کیتی۔ ہوں پاکستان وچ شامل علاقیا وچ سب تو پہلا میچ 22 نومبر 1935 نو کراچی وچ سندھ تے آسٹریلیا کرکٹ ٹیموں دے ہویا ۔ اس میچ نو ویکنے واسطے کراچی تو 5000 بندا آیا۔[1] اے میچ برطانوی ہندوستان دے نال برطانیہ دے زیر انتظام کھیڈے سی۔ کرکٹ پاکستان وچ سب تو مقبول کھیڈ ۓ [2] پاکستان دی قوم نیں کرکٹ وچ بارے چنگے ڈے اور گیند باز کھلاڑی جمے نے۔
پاکستان میں کرکٹ کی تاریخ 1947ء میں پاکستان کے معرض وجود آنے سے شروع ہوتی ہے۔ موجودہ پاکستان میں شامل علاقوں میں سب سے پہلا میچ 22 نومبر 1935 کو کراچی میں سندھ اور آسٹریلیا کرکٹ ٹیموں کے درمیان ہوا۔ اس میچ کو دیکھنے کے لئے کراچی سے 5000 لوگ آئے۔[1] یہ میچ برطانوی ہندوستان کے دور مین برطانیہ کے زیر انتظام کھیلا گیا۔ کرکٹ پاکستان میں سب سے مقبول کھیل ہے۔[2] پاکستان نے بین الاقوامی کرکٹ میں بہت سے قابل ذکر بلے باز اور گیند باز کھلاڑی پیدا کیے ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ مقامی کرکٹ مقابلے دی دیکھ بھال کردا ے ۔ پاکستان انٹر ین شنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) تے ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) دہ رکن ملک ے ۔
پاکستان کرکٹ بورڈ مقامی کرکٹ مقابلوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) اور ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) کا رکن ملک ہے۔

غزل
غزل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا سب سے بڑا نمائندہ جس نے اس کو باقاعدہ رواج دیا تھا۔ وہ ولی دکنی تھا۔ لیکن ولی سے غزل کاآغاز نہیں ہوتا اس سے پہلے ہمیں دکن کے بہت سے شعراءکے ہاں غزل ملتی ہے۔ مثلاً قلی قطب شاہ، نصرتی ، غواصی ، ملاوجہی۔ لیکن ولی نے پہلی بار غزل میں تہذیبی قدروں کو سمویا ۔ اس کے بعد ہمارے سامنے ایہام گو شعراءآتے ہیں۔ جنہوں نے بھی فن اور فکر کے حوالے سے غزل کو تہذیب و روایات سے قریب کیا۔ایہام گوئی کے کی بعد اصلاح زبان اور فکر کی تحریک شروع ہوئی جو مظہر جانِ جاناں نے شروع کی انہوں نے غزل میں فارسیت کو رواج دیا۔ لیکن وہ مکمل طور پر ہندیت کو غزل سے نکال نہیں سکے۔لہٰذا اس کے بعدمیر تقی میر او ر سودا کا دور ہمارے سامنے آتا ہے اس میں ہمیں نئی تہذیب اور اسلوب کا سراغ ملتا ہے۔ اس میں ہمیں وہ کلچر نظر آتا ہے جو ہندی ایرانی کلچر ہے ۔وہ اسلوب ہے جس میں فارسی کا غلبہ تو ہے لیکن اندرونی طور پر ھندی ڈکشن کے اثرات ہیں۔میر اورسودا کا دور غزل کے عہد زریں کا دور ہے ۔ جس میں مکمل طور پر کلاسیکی پیمانوں کی پیروی کی گئی ۔

فیصل آباد دہ موسم چوکھا گرم تے خشک ہوندا ے ۔ فیصل آباد دہ چوکھا تھو چوکھا درجہ حرارت گرمیا دے وچ 26 مئی 2010 نو 48 ڈگری دسیا ے ۔[1] تے سردیوں وچ کھٹ تھو کھٹ درجہ حرارت منفی اک دسیا ے ۔ [2]
فیصل آباد کا موسم زیادہ تر گرم اور خشک ہوتا ہے۔ فیصل آباد کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت گرمیوں میں 26 مئی 2010 کو 48 ڈگری دیکھا گیا۔[1] اور سردیوں میں کم سے کم درجہ حرارت منفی ایک دیکھا گیا۔ [2]

بری نظامی دی شاعری
بری نظامی کی شاعری

ناں
نام

بری نظامی لازوال لوک گیتاں دا خالق اور گوشہ گمنامی وچ فوت ہوجان والا شاعر۔
بری نظامی لازوال لوک گیتوں کے خالق اور گوشہ گمنامی میں فوت ہوجانے والا شاعر۔

بری نظامی دا قلمی نام استعمال کرن والے شاعر دا اصلی ناں شیخ محمد صغیر عرف بری نظامی اے تے انہاں دے والد دا ناں شیخ غلام محمد سی
بری نظامی کے قلمی نام استعمال کرنے والے شاعر کا اصلی نام شیخ محمد صغیر المعروف بری نظامی ہے اور ان کے والد کا نام شیخ غلام محمد تھا

بری نظامی 26 دسمبر 1937ء نوں گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ پنجاب پاکستان میں پیدا ہویا.[1]
بری نظامی 26 دسمبر 1937ء کو گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ پنجاب پاکستان میں پیدا ہوا.[1]

بری نظامی 59 سال کی عمر وچہ اتوار دے دیہاڑے17 محرم 1419ھ 14 مئی 1998ء نوں فیصل آباد میں فوت ہویا.[2]
بری نظامی 59 سال کی عمر میں بروز اتوار17 محرم 1419ھ 14 مئی 1998ء کو فیصل آباد میں فوت ہوئے.[2]

بری اپنی زندگی وچ تے اپنی لازوال شاعری دا کوئی مجموعہ شائع نہ کرا سکیا- مرن توں بعداک شاعر دوست جمیل سراج نے “قدراں “نامی مجموعہ کلام شائع کرایا-
بری اپنی زندگی میں تو اپنی لازوال شاعری کا کوئی مجموعہ شائع نہ کرا سکا- بعد از وفات ایک شاعر دوست جمیل سراج نے “قدراں “نامی مجموعہ کلام شائع کرادیا-

ضلعی انتظامیہ فیصل آباد دی طرفوں سے’’ دم مست قلندر مست مست ‘‘دے خالق پنجابی دے نامور شاعر بری نظامی دی شاندار ادبی خدمات دے اعتراف میں اقبال سٹیڈیم دے بیرونی چوک داناں ‘‘بری نظامی چوک ’’ رکھ دتا گیا ہے - [3]
ضلعی انتظامیہ فیصل آباد کی طرف سے’’ دم مست قلندر مست مست ‘‘کے خالق پنجابی کے نامور شاعر بری نظامی کی شاندار ادبی خدمات کے اعتراف میں اقبال سٹیڈیم کے بیرونی چوک کانام ‘‘بری نظامی چوک ’’ رکھا گیا ہے - [3]

بری نظامی دے لکھے ہوئے گیتاں نے نصرت فتح علی خان دے فن نوں نئی بلندیاں نال آشنا کیتا- اوہ خود تے غریب سی، غریب ہی مریا، پر اس داناں اس دے گیتاں دے نال انمٹ ہو گیا- اس دے دلگداز گیت ’’کسے دا یار ناں وچھڑے ‘‘نے تے سارے پاکستان نوں رلا دتا سی- بے پناہ درد اے اس دے الفاظ وچ تے نصرت فتح علی دے انداز وچ وی- عطا اللہ خان عیسی خیلوی دی آواز وچ وی بری نظامی دا ہر گیت بے پناہ مقبول ہویا-
بری نظامی کے لکھے ہوئے نغموں نے نصرت فتح علی خان کے فن کو نئی بلندیوں سے آشنا کیا- وہ خود تو غریب تھا، غریب ہی مرا، لیکن اس کانام اس کے گیتوں کے باعث امر ہو گیا- اس کے دلگداز گیت ’’کسے دا یار ناں وچھڑے ‘‘نے تو سارے پاکستان کو رلا دیا تھا- بے پناہ درد ہے اس کے الفاظ میں بھی اور نصرت فتح علی کے انداز میں بھی- عطا اللہ خان عیسی خیلوی کی آواز میں بھی بری نظامی کا ہر گیت بے پناہ مقبول ہوا-

فیصل دوم Faisal II فيصل الثاني شاہ عراق معیاد عہدہ 4 اپریل 1939 – 14 جولائی 1958 پیشرو شاہ غازی جانشین محمد نجيب الربيعي (بطور وزیر اعظم عراق) ریجنٹ عبد الإله شریک حیات 2 مئی 1953 مکمل نام فیصل بن غازی بن فیصل بن حسین بن علی خاندان بنو ھاشم والد شاہ غازی والدہ عالیہ بنت علی پیدائش 2 مئی 1935(1935-05-02)بغداد, مملکت عراق وفات 14 جولائی 1958(1958-07-14) (عمر 23)بغداد, عرب اتحاد تدفین شاہی مزار, اعظمیه مذہب اہل سنت[1]
فیصل دوم Faisal II فيصل الثاني شاہ عراق معیاد عہدہ 4 اپریل 1939 – 14 جولائی 1958 پیشرو شاہ غازی جانشین محمد نجيب الربيعي (بطور وزیر اعظم عراق) ریجنٹ عبد الإله شریک حیات 2 مئی 1953 مکمل نام فیصل بن غازی بن فیصل بن حسین بن علی خاندان بنو ھاشم والد شاہ غازی والدہ عالیہ بنت علی پیدائش 2 مئی 1935 (1935-05-02)بغداد, مملکت عراق وفات 14 جولائی 1958 (عمر 23 سال)بغداد, عرب اتحاد تدفین شاہی مزار, اعظمیه مذہب اہل سنت[1]

میر قاسم Mīr Qāsim نواب ناظم بنگال، بہار اور اوڈیشا (نواب بنگال) Nasir ul-Mulk (Victor of the country) Etmaz ud-Daula (Politician of the state) عالی جاہ نصرت جنگ' معیاد عہدہ 20 اکتوبر 1760ء – 7 جولائی 1763ء (معزول از برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی، 7 جولائی 1763)[1] پیشرو میر جعفر جانشین میر جعفر شریک حیات نواب فاطمہ بیگم صاحبہ، دختر میر جعفر اور شاہ خانم نسل Mirza Ghulam Uraiz Ja'afari Mirza Muhammad Baqir ul-Husain Nawab Muhammad Aziz Khan Bahadur Nawab Badr ud-din Ali Khan Bahadur مکمل نام میر محمد قاسم علی خان خاندان نجفی والد میر رضی خان وفات سانچہ:تاریخ وفاتکوتوال نزد دہلی
میر قاسم Mīr Qāsim نواب ناظم بنگال، بہار اور اوڈیشا (نواب بنگال) Nasir ul-Mulk (Victor of the country) Etmaz ud-Daula (Politician of the state) عالی جاہ نصرت جنگ' معیاد عہدہ 20 اکتوبر 1760ء – 7 جولائی 1763ء (معزول از برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی، 7 جولائی 1763)[1] پیشرو میر جعفر جانشین میر جعفر شریک حیات نواب فاطمہ بیگم صاحبہ، دختر میر جعفر اور شاہ خانم نسل Mirza Ghulam Uraiz Ja'afari Mirza Muhammad Baqir ul-Husain Nawab Muhammad Aziz Khan Bahadur Nawab Badr ud-din Ali Khan Bahadur مکمل نام میر محمد قاسم علی خان خاندان نجفی والد میر رضی خان وفات 8 مئی 1777(1777-05-08)کوتوال نزد دہلی

"Reign of Mir Qasim". royalark.net. سانچہ:Self-published source ↑ Shah, Mohammad (2012).
"Reign of Mir Qasim". royalark.net. سانچہ:Self-published source ↑ Shah، Mohammad (2012). "Mir Qasim". in Islam، Sirajul; Jamal، Ahmed A..

"Mir Qasim", Banglapedia: National Encyclopedia of Bangladesh, Second, Asiatic Society of Bangladesh.
Banglapedia: National Encyclopedia of Bangladesh (Second ed.). Asiatic Society of Bangladesh. http://en.banglapedia.org/index.php?title=Mir_Qasim. Cite book last Shah first Mohammad year 2012 title Banglapedia: National Encyclopedia of Bangladesh chapter Mir Qasim chapter-url http://en.banglapedia.org/index.php?title=Mir_Qasim chapterurl http://en.banglapedia.org/index.php?title=Mir_Qasim edition Second publisher Asiatic Society of Bangladesh editor1-last Islam editor2-last Jamal editor1-first Sirajul editor2-first Ahmed A. editor1-link Sirajul Islam

ISBN 0-19-561552-2.
Cite book author Parshotam Mehra year 1985 title A Dictionary of Modern History (1707–1947) publisher Oxford University Press isbn 0-19-561552-2 ISBN 0-19-561552-2

دکنی اُردو حیدر آبادی اُردو چ مقامی تلنگانہ مہاراشٹر کے مراٹھواڑہ کے 8 اضلاع میں شمالی کرناٹک کے اضلاع میں علاقہ دکن بولی ٹبر ہند۔یورپی ہند۔آریائی اردو دکنی اُردو لپی اردو بولی کوڈ ISO 639-3 dcc Linguist list urd-dak
دکنی اُردو حیدر آبادی اُردو مستعمل تلنگانہ مہاراشٹر کے مراٹھواڑہ کے 8 اضلاع میں شمالی کرناٹک کے اضلاع میں خطّہ دکن خاندانہائے زبان ہند۔یورپی ہند۔آریائی اردو دکنی اُردو نظام کتابت اردو رموزِ زبان آیزو 639-3 dcc فہرستِ زبانداں urd-dak

Islam: A Short History, 11.
Islam: A Short History. صفحات۔11.

ISBN 0-8129-6618-X. ↑ The Book of Idols (Kitāb al-Asnām) by Hishām Ibn al-Kalbī 1 2 Book of Idols
Cite book author Karen Armstrong date 2000,2002 title Islam: A Short History pages 11 isbn 0-8129-6618-X ISBN 0-8129-6618-X ↑ The Book of Idols (Kitāb al-Asnām) by Hishām Ibn al-Kalbī 1 2 Book of Idols

This article is a stub. You can help Wikipedia by expanding it.
یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔

ISBN 0-8129-6618-X. ↑ The Book of Idols (Kitāb al-Asnām) by Hishām Ibn al-Kalbī
Cite book author Karen Armstrong date 2000,2002 title Islam: A Short History pages 11 isbn 0-8129-6618-X ISBN 0-8129-6618-X ↑ The Book of Idols (Kitāb al-Asnām) by Hishām Ibn al-Kalbī

↑ (1942) Enciclopedia Croatica, III (in Croatian), Zagrem: Naklada Hrvatskog Izdavalačkog Bibliografskog Zavoda, 157. Retrieved on March 15, 2011. “Krajišnik Isabeg imenovan je 1463 sandžakbegom novoustrojenog sandžaka Bosna”
↑ (Croatian میں) Enciclopedia Croatica (III ed.)Zagrem: Naklada Hrvatskog Izdavalačkog Bibliografskog Zavoda1942صفحہ۔157 http://www.scribd.com/doc/24124044/Hrvatska-enciklopedija-Sv-III-Boja-Bra%C5%BE%C4%91enje۔ اخذ کردہ بتاریخ March 15, 2011 "Krajišnik Isabeg imenovan je 1463 sandžakbegom novoustrojenog sandžaka Bosna" Cite book year 1942 title Enciclopedia Croatica url http://www.scribd.com/doc/24124044/Hrvatska-enciklopedija-Sv-III-Boja-Bra%C5%BE%C4%91enje page 157 edition III location Zagrem publisher Naklada Hrvatskog Izdavalačkog Bibliografskog Zavoda language Croatian access-date March 15, 2011 accessdate March 15, 2011 quote Krajišnik Isabeg imenovan je 1463 sandžakbegom novoustrojenog sandžaka Bosna

خرم سلطان Hürrem Sultan خاصکی سلطان خرم سلطان شریک حیات سلیمان اعظم نسل شہزادہ محمد مہر ماہ سلطان شہزادہ عبداللہ شہزادہ سلیم شہزادہ بایزید شہزادہ جہانگیر مکمل نام الیگزینڈرا لیزووسکا/لا روزا یا ایناستاسیا (پیدائشی نام) Devletlû İsmetlû Hürrem Hâseki Sultân Ahiyât-üs Şân Hâzretleri (شاہی نام) خاندان عثمانی خاندان (بلحاظ ازدواج) پیدائش c. 1502/04ممکنہ طور پر روہاتین, مملکت پولینڈ وفات 15 اپریل 1558 (عمر 53-56)توپ قاپی محل, قسطنطنیہ, سلطنت عثمانیہ تدفین سلیمانیہ مسجد, قسطنطنیہ[1][2] مذہب آرتھوڈوکس عیسائی سے تبدیل اسلام
خرم سلطان Hürrem Sultan خاصکی سلطان خرم سلطان شریک حیات سلیمان اعظم نسل شہزادہ محمد مہر ماہ سلطان شہزادہ عبداللہ شہزادہ سلیم شہزادہ بایزید شہزادہ جہانگیر مکمل نام الیگزینڈرا لیزووسکا/لا روزا یا ایناستاسیا (پیدائشی نام) Devletlû İsmetlû Hürrem Hâseki Sultân Ahiyât-üs Şân Hâzretleri (شاہی نام) خاندان عثمانی خاندان (بلحاظ ازدواج) پیدائش عیسوی 1502/04ممکنہ طور پر روہاتین, مملکت پولینڈ وفات 15 اپریل 1558 (عمر 53-56)توپ قاپی محل, قسطنطنیہ, سلطنت عثمانیہ تدفین سلیمانیہ مسجد, قسطنطنیہ[1][2] مذہب آرتھوڈوکس عیسائی سے تبدیل اسلام

+ Add translation
شمعون بن لکیش

+ Add translation
انعام الحسن کاندھلوی

پاکستان دا ایوان بالا سینیٹ اے۔
پاکستان کا ایوان بالا سینیٹ ہے۔

ایوان بالا ، قانون ساز دی حیثت دا ادارہ اے۔ پاکستان وچ ایوان بالا دیاں 104 سیٹاں نیں۔
ایوانِ بالا (انگریزی: Upper House) ایک ایسا ادارہ ہے جو قانون ساز حیثیت کا حامل ہوتا ہے اور آج بھی کئی ممالک میں اسے ایوانِ زیریں پر سبقت حاصل ہوتی ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک کے ایوانِ بالا موجود ہیں۔ تاریخی طور پر روم کا ایوانِ بالا شہرت کا حامل ہے۔ ایوانِ بالا کے ارکان اکثر ممالک میں عوام کے منتخب نمائندے نہیں ہوتے بلکہ انہیں ایوانِ زیریں کے ارکان منتخب کرتے ہیں۔ ایک لحاظ سے ایوانِ بالا میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جن کو طبقہ اشرافیہ یا ملک کا امیر طبقہ سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً برطانیہ کا ایوانِ بالا دارالامرا (House of Lords) ایک ایسی ہی مثال ہے۔ یاد رکھیے کہ ضروری نہیں کہ ہر ملک کا ایوان بالا سینٹ ہو، ہر سینٹ ایوان بالا ہوتا ہے مگر ہر ایوان بالا سینٹ نہیں ہوتا۔ یعنی جو ممالک بھی دو ایوان رکھتے ہیں ان میں ایوان بالا پارلمانی جمہوری نظام میں سینٹ ہوتا ہے (جیسے پاکستان) ،لیکن کہیں ممالک میں ایوان بالا سینٹ نہیں بلکہ کوئی اور نام کا ایوان ہوتا ہے (جیسے برطانیہ میں ہاوس آف لارڈز اور افغانستان میں مشرانو جرگہ)۔ پاکستان میں ایوان بالا کی 104 نشستیں ہیں .

سکے دار (انگریزی: Sikkedar) دا اصلی ناں رحیم بخش کھوکھر ایں 1927ء نوں لاہور دے قریب اک چھوٹے جیاں پنڈ نیاز بیگ دے علاقے وچ جم پال ہوی۔ سکےدار دی پہلی فلم جبرو (1956ء) وچ بنای جندے وچ اے کہانیاں تے مکالمہ لکھے ایں، جہناں دا ریکارڈ اج وی پاکستان دی تاریخی تے ہسٹری فلماں وچ اے تے نالے لگدا اے برطانوی راج دور دی اے پہلی فلم ایں۔ تاں پہر انہاں نے پاکستان دیاں منیاں تنیاں فلماں نوں لکھاں۔ ملنگی (1965ء) وچ، نظام لوہار (1966ء) وچ، امام دین گوہاوہا (1967ء) وچ، نظام (1971ء) وچ، غلام (1973ء) وچ، باغی تے فرنگی (1976ء) وچ، چن وریام (1981ء) وچ ایں پاکستان دیاں وڈیاں فلماں دے ناں نے جندے وچ اناں نے حصہ لیاں تے نالے لکھیاں وے نے۔ 3 جولائی 2006ء نوں شہر لاہور تاں دنیا وچ اناں دا آخری دن سی۔
سکیدار (انگریزی: Sikkedar) کا اصلی نام رحیم بخش کھوکھر تھا وہ 1927ء میں لاہور کے قریب ایک چھوٹا سا گاؤں نیاز بیگ میں پیدا ہوے۔ سکیدار نے اپنی پہلی فلم جبرو (1956ء) میں کہانیاں اور مکالمہ لکھے تھیں، جو ایک رجحان بنانے والے فلم تھا اور شاید برطانوی راج دور پر پہلی فلم تھی۔ ملنگی (1965ء)، نظام لوہار (1966ء)، امام دین گوہاوہا (1967ء)، نظام (1971ء)، غلام (1973ء)، باغی تے فرنگی (1976ء)، چن وریام (1981ء) وغیرہ اس موضوع پر کچھ بڑی فلمیں تھیں۔ 3 جولائی 2006ء کو لاہور میں انتقال کرگے۔

غلامی (انگریزی: Ghulami) پنجابی زبان وچ فلم دا آغاز کیتا۔ اس فلم نوں 25 اکتوبر، 1985ء كو پاکستان تے ریلیز ہوئى۔ پاکستانی اس فلم دا کریکٹر ایکشن تے میوزکل فلماں دے بارے وچ فلم دی تکمیل کیتی گی ایں۔ اے فلم باکس آفس وچ اندے ہی ہٹ ہو گی۔ اس فلم دے ڈائریکٹر جہانگیر قیصر نے۔ پروڈیوسر سرور بھٹی نے۔ کہانی سید نور نے لکھی ایں اور موسیقی وجاہت عطرے نے بنائی ایں۔ اندے وچ سلطان راہی، محمد علی، مصطفٰی قریشی، یوسف خان، افضال احمد تے ادیب وغیرہ شامل نے۔
غلامی (انگریزی: Ghulami) پنجابی زبان میں فلم کا آغاز کیا۔ اس فلم كو 25 اکتوبر، 1985ء كو پاکستان میں ریلیز ہوئى۔ پاکستانی اس فلم کا کریکٹر ایکشن اور میوزکل فلموں کے بارے میں فلم کی تکمیل کی گی ہیں۔ یہ فلم باکس آفس میں ہٹ ہوئی تھی یہ فلم لاہور کے گلستان سنیما میں ڈائمنڈ جوبلی اس کی دو ڈھائی ماہ تک کامیاب نمائش ہوئی تھی۔ اس فلم کے ڈائریکٹر جہانگیر قیصر تھے۔ پروڈیوسر سرور بھٹی تھے۔ کہانی سید نور نے لکھی تھی اور موسیقی وجاہت عطرے نے بنائی تھی۔ اس میں سلطان راہی، محمد علی، مصطفٰی قریشی، یوسف خان، افضال احمد اور ادیب وغیرہ تھے۔ اپنے قیام سے لے کر آج تک گلستان سنیما میں لاتعداد سپُر ہٹ فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جا چکی ہیں پاکستان فلم انڈسٹری میں کامیابی کی نئی تاریخ رقم کرنے والی شہرہ آفاق فلمیں ’’چن وریام ‘‘اسی سنیما میں ریلیز ہوئیں۔ لاہور میں چلنے کے بعد لاکھوں شاٸقین کی فرمائش پر [1]

صوبہ نمبر 1 (مجوزہ ناں: کوشی یا پوربچنال) انہاں ست صوبےآں وچو‏ں اک اے جو نیپال دے نويں آئین دے ذریعہ قائم کیتے گئے سن جسنو‏ں 20 ستمبر 2015 نو‏‏ں جاری کیتا گیا سی۔
صوبہ نمبر 1 (مجوزہ نام: کوشی یا پوربچنال) ان سات صوبوں میں سے ایک ہے جو نیپال کے نئے آئین کے ذریعہ قائم کیے گئے تھے جسے 20 ستمبر 2015 کو جاری کیا گیا تھا۔ [2]

دریا
ندیوں

سی ڈی سی ( حلقہ بندی حد بندی کمیشن ) کی رپورٹ کے مطابق ، صوبہ نمبر 1 میں 28 پارلیمانی نشستیں اور 56 صوبائی نشستیں ہیں جو ماضی کے بعد کے ووٹنگ سسٹم کے تحت ہیں۔ [1] 17 جنوری 2018 کی کابینہ کے اجلاس کے مطابق ، برات نگر شہر کو صوبہ نمبر 1 کا عبوری دارالحکومت قرار دیا گیا۔ 6 مئی 2019 کو جب دو تہائی جب اس نے کو صوبہ نمبر 1 کا مستقل دارالحکومت کے طور پر اعلان کیا گیا تھا ممبران اسمبلی صوبہ نمبر 1. صوبائی اسمبلی میں برات نگر کے حق میں ووٹ دیا [2] یہ شمال میں چین کے تبت خود مختار خطے ، مشرق میں ہندوستان کی ریاستوں سکم اور مغربی بنگال ، صوبہ نمبر 3 اور مغرب میں صوبہ نمبر 2 ، اور جنوب میں ہندوستان کے بہار سے ملحق ہے۔ [3] [4]
سی ڈی سی ( حلقہ بندی حد بندی کمیشن ) کی رپورٹ کے مطابق ، صوبہ نمبر 1 میں 28 پارلیمانی نشستیں اور 56 صوبائی نشستیں ہیں جو ماضی کے بعد کے ووٹنگ سسٹم کے تحت ہیں۔ [3] 17 جنوری 2018 کی کابینہ کے اجلاس کے مطابق ، برات نگر شہر کو صوبہ نمبر 1 کا عبوری دارالحکومت قرار دیا گیا۔ 6 مئی 2019 کو جب دو تہائی جب اس نے کو صوبہ نمبر 1 کا مستقل دارالحکومت کے طور پر اعلان کیا گیا تھا ممبران اسمبلی صوبہ نمبر 1. صوبائی اسمبلی میں Biratnagar کے حق میں ووٹ دیا [1] یہ شمال میں چین کے تبت خود مختار خطے ، مشرق میں ہندوستان کی ریاستوں سکم اور مغربی بنگال ، صوبہ نمبر 3 اور مغرب میں صوبہ نمبر 2 ، اور جنوب میں ہندوستان کے بہار سے ملحق ہے۔ [4] [5]