علاوہ بر تفسیر، کتاب دیگری مشتمل بر بیست و ھشت خطابہ ایشان بنام مجالس مرضیہ در دسترس ھمگان قرار دارد. کتاب مشھور دیگر این مولف برجستہ، اصحاب الیمین می باشد کہ دربارہ اصحاب امام حسین در روز عاشورا و در معرکہ کربلا بہ نگارش در آمدہ است. کتاب مھم دیگر ایشان کہ جنبہ جهاد بر علیہ دیکتاتوری شخصی در اسلام را دارد و سرچشمہ بصیرت برای اصحاب فکر و اندیشہ را دارد، کتاب امامت و ملوکیت می باشد.
تفسیر کے علاوہ اٹھائیس مجالس پر مشتمل ایک مبسوط اور تحقیقاتی کتاب مجالس مرضیہ کے نام سے صاحبان ذکر و فکر کے لئے سیرابی نطق و لب کا سامان مہیا کرتی ہے۔ ایک اور کتاب جو زیادہ معروف ہے اور اہمیت کی حامل ہے، اصحاب الیمین کے نام سے شھرت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم تصنیف امامت و ملوکت کے نام سے صاحبان شعور کے لئے سرچشمہ بصیرت اور اسلام میں شخصی مطلق العنانیت کے خلاف جہاد کی حیثیت رکھتی ہے۔


در نظر است، این مقالہ تکمیل گردد.
ان کی کتب اور مزید معلومات جلد ویکیپیڈیا پر شائع کی جائیگی۔ انشاءاللہ تعالی العظیم۔

محقق و مفسر برجسته شیعه، علامه حسین بخش جارا علاوہ بر آن که استاد توان مند و والایی بود، در سخنرانی و نویسندگی نیز از علماء طراز اول شبه قارہ بحساب می آمد. از آثار قلمی ایشان آنچہ سرفھرست قرار می گیرد تفسیر انوار النجف ایشان است کہ رتبہ و جایگاہ ویژہ ای در تفاسیر داشتہ و از قدیمی ترین تفاسیری است کہ بہ زبان اردو بہ رشتہ تحریر در آمدہ است. این تفسیر کہ مشتمل بر چھاردہ جلد می باشد گویای افکار و عقاید ایشان خواھد بود.
ممتاز شعیہ عالم دین و مفسر قرآن علامہ حسین بخش جاڑا جہاں ایک بہترین استاد تھے وہاں بلند پایہ خطیب اور مصنف بھی تھے جہاں تک ان کی تصانیف کا تعلق ہے ان میں سر فہرست قرآن مجید کی تفسیر جو تفسیر انوار النجف کے نام سے بلند پایہ تفاسیر میں ایک منفرد مقام کی حیثیت رکھتی ہے اور بہت اہمیت کی حامل ہے اور یہ تفسیرِ ہمیشہ علامہ کے افکار اور ان کے عقاید کو زندہ رکھے گی۔ جو کہ چودہ جلدوں پر مشتمل ہے.

پیرنصیر الدین نصیر یکی شاعر و نویسنده و پژوهشگر وسخنران و محقق و صوفی از پاکستان است.او نیز مشهور به "شاعر هفت زبان"است.
پیر نصیر الدین نصیر ایک شاعر ،ادیب ،محقق ،خطیب ،عالم اور صوفی باصفا تھے۔آپ اردو ، فارسی اور پنجابی زبان کے شاعر تھے۔ اس کے علاوه عربی ، ہندی ، پوربی اور سرائیکی زبانوں میں بھی شعر کہے. اسی وجہ سے انہین "شاعر ہفت زبان" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

زندگی
حالات زندگی

او یکی از شعرای بزرگ معاصر پاکستان به سال ١٩٤٩میلادی در مضافات شهر [[اسلام آباد ]] در قبیله ی سادات چشم بجهان گشود. او از اولاد [[پیر مهر علی شاه]] بود.او در سال ٢٠١٣ میلادی درگذشت .[1]
آپ پیر غلام معین الدین (المعروف بڑے لالہ جی) کے فرزند ارجمند اور پير مہر علی شاہ کے پڑپوتے تھے۔ آپ کی ولادت 14 نومبر 1949عیسوی میں گولڑه شریف میں ہوئی۔ آپ گولڑہ شریف کی درگاہ کے سجادہ نشین تھے۔ پیر صاحب کا انتقال 13 فروری 2009ء کو ہوا آپ کا مزار گولڑه شریف میں مرجع خلائق ہے۔[1]

آثار
تصانیف و تالیفات

آغوش حیرت(باعیات فارسی) پیمان شب (غزلیات فارسی) دین همه اوست (به عربی, فارسی, اردو پنجابی ) امام ابو حنیفه اور ان کا طرز استدلال(پایان نامه به زبان اردو) نام و نسب(در باره ی سیادت پیران پیر ) فیض نسبت (به عربی, فارسی, اردو پنجابی) رنگ نظام ( رباعیات فارسی ) عرش ناز(اشعار در زبانهایی فارسی و اردو و پوربی و پنجابی و سرائیکی ) دست نظر ( غزلیات فارسی) رسم و راه منزلها(عرفان و مسایل معاصر) تضمینات بر کلام رضا بریلوی) قرآن مجید کی تلاوت کی آداب لفظ الله کی تحقیق اسلام مین شاعری کی حثیت مسلمانون کی عروج و زوال کے اسباب پاکستان مین زلزله کی اسباب فتوی نویسی کی آداب موازنه علم و کرامت
آغوشِ حیرت(رباعیات فارسی) پیمانِ شب (غزلیات اردو) دیں ہمہ اوست (عربی ، فارسی ، اردو ، پنجابی نعوت ) امام ابوحنیفہ اور ان کا طرزِ استدلال (اردو مقالہ) نام و نسب(در باره سیادت پیران پیر ) فیضِ نسبت (عربی ، فارسی ، اردو ، پنجابی مناقب) رنگِ نظام ( رباعیات اردو ) عرشِ ناز (کلام در زبانهائ فارسی و اردو و پوربی و پنجابی و سرائیکی ) دستِ نظر ( غزلیات اردو) راہ و رسمِ منزل ہا (تصوف و مسائل عصری) تضمینات بر کلام حضرت رضا بریلوی قرآنِ مجید کے آدابِ تلاوت لفظ اللہ کی تحقیق اسلام میں شاعری کی حیثیت مسلمانوں کے عروج و زوال کے اسباب پاکستان میں زلزلے کی تباہ کاریاں ، اسباب اور تجاویز فتوی نویسی کے آداب موازنہ علم و کرامت کیا ابلیس عالم تھا؟

ی
نمونہ اشعار فارسی

ی[2]
اے صاحبِ اسمِ پاک!مَن یـَنصُرُنِی دل ریشم و سینہ چاک،مَن یـَنصُرُنِی دستم اگر از فضل نہ گیری ربی مَن یـَنصُرُنِی سَوَاک!مَن یـَنصُرُنِی[2]

اسفر ملواشه یک مندائی کتاب مذهبی. اسفر ملواشه معنای سفر البروج آمده است. این کتاب طالع بینی از طریق آینده از امور و حوادث از شناخت از منابع و روشها از این بیانیه شامل.[1]
اسفر ملواشہ ایک مندائی مذہبی کتاب ہے۔ اسفر ملواشہ کے لغوی معنی سفر البروج کے آتے ہیں۔ یہ کتاب علم نجوم کے ذريعہ مستقبل کے امور و حادثات کے معرفت کے ذرائع اور طریقوں کے بیان پر مشتمل ہے۔[1]

پریم خان
پریم خان معلومات شخصیت پیدائش 31 مئی 1996 (22 سال) عملی زندگی پیشہ فلم اداکار ویب سائٹ IMDB پر صفحہ ترمیم

↑ "Prem Khan (Actor) Height, Weight, Age, Affairs, Biography & More – StarsUnfolded". starsunfolded.com. Retrieved 2017-06-19. ↑ "Prem Khan's Story: From Dhubri to Bollywood – Eclectic Northeast".
↑ "Prem Khan (Actor) Height, Weight, Age, Affairs, Biography & More – StarsUnfolded"۔ starsunfolded.com۔ اخذ کردہ بتاریخ 2017-06-19۔ ↑ "Prem Khan's Story: From Dhubri to Bollywood – Eclectic Northeast".

Retrieved 19 جون 2017.سانچہ:خبر دا حوالہCheck date values in: |date=, |accessdate= (help)سانچہ:خبر دا حوالہ ↑ Ahmed, Hussain (14 مئی 2017). "Prem Khan to Debut in Assamese Film with The Biopic on Arnab Basu – Magical Assam". Magicalassam.com.
Retrieved 19 جون 2017.سانچہ:خبر دا حوالہCheck date values in: |date=, |accessdate= (help)سانچہ:خبر دا حوالہ ↑ Ahmed، Hussain (14 مئی 2017)۔ "Prem Khan to Debut in Assamese Film with The Biopic on Arnab Basu – Magical Assam"۔ Magicalassam.com۔ اخذ کردہ بتاریخ 19 جون 2017۔ ↑ "Prem Khan,"۔ اخذ کردہ بتاریخ 19 جون 2017۔ ↑ "Prem Khan Height, Weight, Age"۔ bollysuperstar.com۔ اخذ کردہ بتاریخ 2017-06-19۔ ↑ Anurag Barman.

Retrieved 19 جون 2017. Check date values in: |access-date=, |date= (help) ↑ "Prem Khan,". Retrieved 19 جون 2017.
"From Dhubri to Bollywood, the inspiring journey of Prem Khan from Assam".

Check date values in: |access-date= (help) ↑ "Prem Khan Height, Weight, Age". bollysuperstar.com. Retrieved 2017-06-19. ↑ Anurag Barman.
The Northeast Today.

"From Dhubri to Bollywood, the inspiring journey of Prem Khan from Assam". The Northeast Today. Retrieved 26 جون 2017.سانچہ:خبر دا حوالہCheck date values in: |accessdate= (help)سانچہ:خبر دا حوالہ
Retrieved 26 جون 2017.سانچہ:خبر دا حوالہCheck date values in: |accessdate= (help)سانچہ:خبر دا حوالہ

چین یک پرواز عمومی 2303 هواپیمایی شمال غربی هواپیمایی بود که در 6 ژوئن 1994 تصادف هوایی انجام شد.
چین نارتھ ویسٹ ائیرلائنز فلائٹ 2303 معمول کی ایک پرواز تھی جو 6 جون 1994ء کو فضائی حادثے کا شکار ہوئی۔

شاه محمد غوث گوالیاری ( 970 هجری قمری ) ( 1562 میلادی ) از مشایخ تصوف هند است. نسب وی با چهار واسطه به فریدالدین عطار می‌رسد.
شاہ محمد غوث گوالیاری(970ھ) (1562ء)کا سلسلۂ نسب خواجہ فرید الدین عطار سے ملتا ہے۔

بعد از انقلاب اسلامی در ایران، نظام اقتصادی مبتنی بر علوم غربی به جا مانده است. حکومت ایران نیز با انتقاد جدی در این باره روبرو می شود. در سال ۱۳۹۷ تعدادی از مراجع دینی صدای اعتراض خود را نسبت به اقتصاد ربایی کشور بلند کردند.
ایران میں انقلاب کے بعد معاشی نظام مغربی علوم پر قائم ہوا ہے اور ملکی معیشت سود پر چلتی ہے۔ اس مسلے پر ایران کے مطلق العنان رہبر کو بھی اکثر دینی حلقوں کی جانب سے تنبیہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔2018ءاور 2019ء کے سالوں میں ایران کے مذہبی مدارس کے شہر قم کے مراجع نے ملک میں سودی معیشت کے خلاف صدائےاحتجاج کو بلند کیا۔

بیانیه های مراجع ایرانی
ایرانی مراجع کے بیانات

" بارها تأکید کرده‌ایم که اخذ دیرکرد توسط بانک‌ها حرام است ولی یا به گوش مسئولان نمی‌رسد و یا می‌رسد ولی عمل نمی‌کنند." [1]
”کئی بار کہا ہے کہ ہمارے بنک قرضے دے کر جرمانے کے نام سے جو رقم وصول کرتے ہیں، وہ سود ہے اور حرام ہے۔ لیکن حکمرانوں کو یا تو ہماری آواز سنائی نہیں دیتی، یا وہ سنتے تو ہیں مگر عمل نہیں کرتے“۔[3]

آیت الله جوادی آملی آیت الله ناصر مکارم شیرازی آیت الله حسین نوری همدانی آیت الله جعفر سبحانی آیت الله محمد علوی گرگانی آیت الله حسین مظاهری
آیت الله جوادی آملی آیت الله ناصر مکارم شیرازی آیت الله حسین نوری ہمدانی آیت الله جعفر سبحانی آیت الله محمد علوی گرگانی آیت الله حسین مظاہری

در اسفند ۱۳۹۷، آیت الله جعفر سبحانی گفت:
فروری 2019ء میں آیت الله جعفر سبحانی نے کہا:

"مردم از بانک‌ها وام گرفته و بانک‌ها هم از آن‌ها سود می‌گیرند و کنار این سود، دیرکرد هم دریافت می‌کنند که مراجع آن را حرام می‌دانند و باید در این زمینه طبق نظر علما عمل کرد." [1]
”لوگ بنک سے قرضہ لیتے ہیں اور بنک ان سے سود لیتے ہیں۔ اس سود کے ساتھ ساتھ قرضہ واپس کرنے میں تاخیر پر بنک لوگوں کو جرمانہ بھی کر دیتے ہیں۔ سب مراجع نے اس کو حرام کہا ہے۔ علماء کی رائے کے مطابق عمل کریں“۔[4]

در بهمن ۱۳۹۷، آیت الله الوی گرگانی گفت:
فروری 2019ء میں آیت الله علوی گرگانی نے کہا:

"بازار امروز کساد است و افراد نمی توانند دین خود را ادا کنند از این رو نباید سریع به دنبال گرفتن دیرکرد از مردم باشند؛ ما در نظام اسلامی بانک هایی خدمت گزار و کمک کار و عصای دست مردم می خواهیم. کمی این درصدها را پایین تر بیاورید و سود کمتری از مردم بگیرید تا مردم در فشار نباشند یا حداقل زمان مقطعی درست کنید؛ یعنی در زمان رواج بازار اشکالی ندارد ولی در زمان کسادی بازار از مردم کمتر سود بگیرید و به داد مردم برسید." [1]
”آج کل اقتصادی حالات برے ہیں۔ ایسے حالات میں لوگ اپنے دینی فرائض بھی ادا نہیں کر پا رہے۔ ایسے موقع پر (بنکوں کو) عوام سے سود لینے میں جلدی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ ہم اسلامی نظام میں ایسے بنک چاہتے ہیں جو لوگوں کے خدمت گذار، مدد گار اور دست و بازو بنیں۔ برائے مہربانی اپنے سود کی شرح کو تھوڑا کم کیجیے تاکہ لوگوں پر دباؤ کم ہو۔ یا کم از کم حالات کے حساب سے سود لیا کریں، مثلاً جب معاشی سرگرمی تیز ہو تو سود لینے میں کوئی ہرج نہیں مگر جب معیشت کا پہیہ سست ہو جائے تو لوگوں پر رحم کیا کریں اور کم سود لیا کریں“۔[5]

در دی ۱۳۹۷، ایت الله مظاهری فرمود:
جنوری 2019ء

"متأسفانه در زمان حاضر، رباخوردن و ربادادن، عادي شده است و بعضي مثل اينکه بخواهند با حیله‌های شرعی موش را آب بکشند و بخورند، ربا مي‌خورند. رشوه‌خواری‌ و رشوه‌دادن نیز چنين است. معمولاً انجام کارها و فیصله‌دادن پرونده‌ها و گشودن گره‌ها، بدون پارتی‌بازی یا بدون رشوه مشکل است. " [1]
”افسوس ہے کہ سود لینا اور سود دینا ایک عادت بن چکی ہے۔ بعض لوگ شرعی بہانے لگا کر ایسے سود کھاتے ہیں کہ مثلاً چوہے کو پانی سے دھو کر حلال قرار دے دیا جائے۔ اسی طرح رشوت لینا اور دینا بھی نظام میں سرایت کر چکا ہے۔ معمولاً کوئی کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتا۔ کوئی گرہ رشوت کے بغیر نہیں کھلتی، نہ وکوئی فائل پہیے لگائے بغیر آگے جاتی ہے“۔[6]

در ۱۵ فروردين ۱۳۹۷، آیت الله جوادی آملی در بیانیه ای گفت:
اپریل ٢٠١٨ میں آیت اللہ جوادی آملی نے اپنے بیان میں کہا:

" قرآن، شیطان را مستکبر معرفی کرده ولی من به خاطر ندارم محاربه به شیطان نسبت داده شود ولی فرمود بانک‌های ربوی، محارب هستند، بنابراین شما دائما بگوئید سال اشتغال و تولید ولی تا سرمایه غیر ربوی نباشد درست نخواهد شد." [1]
”قرآن نے شیطان کو مستکبر کہا ہے، لیکن میرے حافظے کے مطابق قرآن میں اس کو محارب نہیں کہا گیا۔ سودی بنک کاری اللہ اور رسول کے ساتھ جنگ ہے۔ آپ بے شک کسی سال کا نام سالِ اشتغال و تولید رکھتے پھریں، (ایران کے رہبر نے اس سے پچھلے سال کا نام سالِ اقتصاد مقاومتی: تولید و اشتغال رکھا تھا)، جب تک سرمایہ سودی ہو گا، اصلاح نہیں ہو گی“۔[1]

در ۱۳۹۷/۱۱/۲۰، آیت الله ناصر مکارم شیرازی گفت:
فروری 2019ء میں آیت الله ناصر مکارم شیرازی نے اپنے بیان میں کہا:

"بانک ها با وضعیتی که ایجاد کرده اند، مردم را بیچاره کرده و به خاک سیاه نشانده اند؛ به اسم تسهیلات قرض الحسنه و به جای این که چهار درصد کارمزد برای طول دوره بازپرداخت تسهیلات دریافت کنند، هرسال 4 درصد دریافت می کنند و در پایان سال پنجم بیست درصد سود از باقیمانده از مردم دریافت می کنند، این رباخواری آشکار است که به نام قرض الحسنه انجام می شود." [1]
”بنکوں نے ایسے حالات پیدا کیے ہیں کہ لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن کر دیا ہے۔ بجائے اس کے کہ قرضِ حسنہ پر چار فیصد کی مستقل شرح سود پر لوگوں سے اپنا معاوضہ وصول کریں، ہر سال شرحِ سود میں چار فیصد مزید شامل کرتے کرتے یہاں تک لے جاتے ہیں کہ پانچویں سال قرض کی باقی ماندہ رقم پر واجب الادا سود بیس فیصد تک جا پہنچتا ہے۔ قرضِ حسنہ کے نام پر کھلم کھلا سود خوری جاری ہے“۔[2]

در شهريور ۱۳۹۷، آیت الله حسین نوری همدانی گفت:
ستمبر 2018ء میں آیت الله حسین نوری ہمدانی نے کہا:

8- شعر فیض احمد فیض
8 _ فیض احمد فیض کی شاعری

[2] جدروپ در دانش ویدانته و تصوف خبره بود و بر آن‌ها تسلط داشت. [3] به گفته معتمد خان، جادروپ برای پاکسازی ذهن مسلمانان استدلال‌هایی را ارائه می‌داد. [4] در سال 1617 میلادی جهانگیرشاه که در حال گذر از شهر اوجائین بود ، به ملاقاتش رفت و چون جدروپ در گوشه یک جنگل زندگی می‌کرد، جهانگیر مسافتی را پیمود تا او را بیابد، زیرا آن گونه که شاه در خاطرات خود نوشته‌است، در یازدهمین سال سلطنتش بدون دیدن زندگی ساده‌زیستانه‌ی جدروپ نمی‌توانست به زندگی ادامه دهد. نهایتاً جدروپ را یافت که محل سکونتش در غاری در کنار تپه بود.
دبستان مذاہب کے مطابق جدروپ گوسین کا تعلق 'دھنداری' سنیاسی (فقیر) کے گروہ سے تھا۔ وہ گجرات کے دولت مند جوہری براہمن کا بیٹا تھا۔[1] 22 برس کی عمر میں، اس نے اپنے والدین اور خاندان کو چھوڑ کر سنیاس لے لیا۔[2] وہ ویدانت کے علم اور تصوف کے علم میں ماہر تھا اور اسے ان پر زبردست عبور حاصل تھا۔[3] معتمد خان کے مطابق جدروپ مسلمانوں کے تصورات کی صفائی میں دلائل پیش کرتا تھا۔[4] 1617ء میں جب جہانگیر، اوجین سے گزر رہا تھا تو وہ جدروپ گوسین سے ملنے کے لیے چلا گیا، جو ایک جنگل کے گوشے میں رہتا تھا۔ جہانگیر اپنی یاداشتوں میں لکھتا ہے کہ جدروپ کی حد سے زیادہ سادہ زندگی کی مقبولیت نے ان سے ملنے کے لیے مجبور کیا، پہلے تو اس نے سوچا کہ جدروپ کو آگرہ بلا لے لیکن پھر حد ادب کی وجہ سے اس خیال کو ترک کر دیا۔ پھر اپنی بادشاہت کے گیارہویں سال جب جہانگیر اجین سے گزر رہا تھا تو وہ اس سنیاسی سے ملے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ اس کی جائے سکونت تک پہنچنے کے لیے کچھ دور تک پیدل بھی چلا۔ اس کی قیام گاہ ایک پہاڑی کے پہلو میں ایک غار میں تھی۔[5]

جهانگیر همچنین از ابعاد محل اقامت و ساده بودن رژیم غذایی او یاد می کند. جهانگیر شش ساعت با جدروپ ماند و در مورد ویدانته با او گفتگو کرد. جهانگیرشاه تحت تأثیر نحوه صحبت کردن جدروپ قرار گرفت. [1] سه روز بعد ، جهانگیر نزد جدروپ بازگشت و زمان بیشتری را با او گذراند. [2] سر توماس روی نیز به دیدار جهانگیر با جدروپ در سال 1617 اشاره دارد.
جہانگیر نے اس کے مسکن کا طول و عرض اور اس کی سادہ ترین خوراک کا بھی ذکر کیا ہے۔ جہانگیر نے جدروپ کے ساتھ چھ گھڑیاں قیام کیا اور اس سے ویدانت پر گفتگو کی۔ جہانگیر، جدروپ کے انداز گفتگو سے بے حد متاثر ہوا۔[6] تین دن کے بعد جہانگیر دوبارہ جدروپ کے پاس گیا اور اس کے ساتھ زیادہ وقت گزارا۔[7] سر تھامس روئے نے بھی جہانگیر کی جدروپ سے 1617ء کو اجین میں ملاقات کا حوالہ دیا ہے۔[8]

در سیزدهمین سال سلطنت جهانگیر، تقریباً در سال 1618 میلادی ، هنگامی که جهانگیر از احمدآباد برمی گشت و کاروان سلطنتی در نزدیکی اوژن اردو زدند ، جهانگیر دو بار با جدروپ ملاقات کرد. [1]
اپنی تخت نشینی کے تیرہویں برس یعنی 1618 عیسوی کے لگ بھگ جب جہانگیر احمد آباد سے آرہا تھا اور شاہی قافلے نے اوجین کے قریب پڑاؤ ڈالا تو جہانگیر نے دو مرتبہ جدروپ سے ملاقات کی، دوسری ملاقات میں جدروپ نے جہانگیر کو اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتایا۔[9]

در چهاردهمین سال سلطنت جهانگیر ، در سال 1619 میلادی ، جدروپ از اوجائین به ماتورا مهاجرت کرد. [1] در در ماتورا نیز ، جهانگیر دو بار به دیدار جدروپ رفت و او زندگی روزمره خود را توصیف کرد ، این که چگونه تقریباً تمام زمستان و تابستان و در باران برهنه بوده و فقط نیمی از بدنش با پارچه نخی پوشیده بود و فقط یک فنجان سفالی داشت که از آن آب بخورد و غار او به قدری کوچک بود که به سختی می توانست حرکت کند. [2] هنگامی که او به جلسه خداحافظی با جهانگیر آمد به ماتورا رفت و شاه به سختی با او خداحافظی کرد.
جہانگیر کی بادشاہت کے چودھویں برس 1619 عیسوی کو جدروپ اوجین سے نقل مکانی کر کے متھرا چلا گیا۔[10] متھرا میں بھی جہانگیر دو مرتبہ جدروپ سے ملنے گیا۔ اور اس کی روزمرہ زندگی کو بیان کیا کہ کس طرح وہ سردیوں، گرمیوں اور برساتوں میں صرف آدھ گز سوتی کپڑا پہنے تقریباً ننگا رہتا تھا اور پانی پینے کو اس کے پاس مٹی کا ایک پیالہ ہی تھا۔ اور اس کا حجرہ اتنا چھوٹا تھا کہ وہ بمشکل اس میں حرکت کرتا تھا۔[11] جب جہانگیر متھرا سے جانے لگا تو جدروپ سے الوداعی ملاقات کرنے گیا اور بوجھل دل سے اسے خدا حافظ کہہ کر واپس ہوا۔[12]

در اقبال‌نامه جهانگیری ، نویسنده می نویسد که میرزا عزیز کوکا ، پدر خسرو میرزا (که از سال 1606 به جرم شورش در زندان بود) ، مخفیانه با جدروپ ملاقات کرد و از او خواست که تا از نفوذ خود استفاده کند و خسرو را آزاد کند. بنابراین ، جهانگیر به توصیه جدروپ ، دستوراتی برای آزادی خسرو صادر کرد. [1]
اقبال نامہ جہانگیری میں مصنف لکھتا ہے کہ جہانگیر کے بیٹے خسرو مرزا (جو بغاوت کرنے کی وجہ سے 1606ء سے زندان میں تھا) کے سسر مرزا عزیز کوکا نے خفیہ طور پر جدروپ سے ملاقات کی اور اس سے گزارش کی کہ وہ خسرو کی رہائی کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ چنانچہ جدروپ گوسین کی سفارش پر جہانگیر نے خسرو کی رہائی کے احکامات جاری کیے۔[14]

جالب اینکه جهانگیر بلافاصله پس از ملاقات با جدروپ در ماتورا از آزادی خسرو صحبت کرد. [1]
دلچسپ بات یہ ہے کہ جہانگیر نے جدروپ سے متھرا میں ملاقات کے فوراً بعد خسرو کی رہائی کا تذکرہ کیا[15] لیکن جہانگیر کی یادداشتوں میں جدروپ سے ملاقاتوں میں کہیں بھی خسرو کی رہائی کے متعلق کسی گفتگو کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

[2] احترام جهانگیر به جدروپ توسط دبستان مذاهب نیز تأیید شده است. [3] اشراف گورکانی نیز به دیدار جدروپ می رفتند و هنگامی که وی در بنارس بود ، حکیم کامران شیرازی به دیدار وی می رفت. عبدالرحیم خانخانان چنان به جادروپ احترام گذاشت که برای ملاقات او خم شد. [4] معتمد خان ، نویسنده اقبال‌نامه جهانگیری ، یک مثنوی در ستایش جدروپ نوشت و در آن به کوچکی غار جدروپ ، کمبود غذا و بیزاری از دنیای او اشاره کرد.
نورجہاں کے بہنوئی اور متھرا کے جاگیردار حکیم بیگ نے ایک بار کسی بہانے سے جدروپ گوسین کو کوڑے مروائے، جب جہانگیر کو اس سانحے کی اطلاع ہوئی تو اس نے حکیم بیگ کو برطرف کر دیا۔[16] اور اس کے بعد حکیم بیگ کو کبھی بھی کوئی شاہی خدمت سپرد نہیں کی گئی۔[17] جدروپ کے لیے جہانگیر کی تکریم کی تصدیق دبستان مذاہب نے بھی کی ہے۔[18] مغل شرفاء بھی جدروپ کے پاس جایا کرتے تھے، جب وہ بنارس میں تھا تو حکیم کامران شیرازی اس سے ملاقات کو جایا کرتا تھا۔ عبدالرحیم خانخاناں جدروپ کی اس قدر تعظیم کرتا تھا کہ جھک کر اس سے ملتا تھا۔[19] اقبال نامہ جہانگیری کے مصنف معتمد خان نے جدروپ کی تعریف میں ایک مثنوی لکھی جس میں اس نے جدروپ کے حجرے کی تنگی ، اس کی کم خوراکی اور دنیا سے بے رغبتی کا ذکر کیا۔[20]

هنرمندان گورکانی همچنین در ستایش جدروپ آثاری دارند. برخی از نمونه های نادر نقاشی مغول ، ملاقات جهانگیر با این گوسین را در غار جدروپ نشان می‌ دهد.
مغل مصوروں نے بھی جدروپ کی ستائش میں کام کیا۔ مغل مصوری کے کچھ نادر نمونوں میں جدروپ کے حجرے میں جہانگیر کو اس سنیاسی سے ملاقات کرتے دکھایا گیا ہے۔

بدر رفیکی ( بربر : ⴱⴰⴷⵔ ⵔⴰⴼⵉⴽⵉ ، ( 22 ژوئیه 1998 ) خواننده مراکشی است ، متولد سیدی بنور ، مراکش است . [1]
بدر رفیقی (بربر: ⴱⴰⴷⵔ ⵔⴰⴼⵉⴽⵉ ، (22 جولائی ، 1998) مراکش کے گلوکار ہیں ، جو مراکش کے شہر سیدی بنور میں پیدا ہوئے تھے۔[2]

ابوالطفیل عامر بن واثله آخرین صحابی بود که درگذشت. </br> ابوالطفیل عامر بن واثله بن عبدالله بن عمر بن لیثی ساکن مکه بود و در سالی که در آن جنگ احد اتفاق افتاد متولد شد. حافظ بن حجر عسقلانی می گوید: "از آنجا که همه ما اهل حدیث هر شخصی را که مدعی باشد بعد از ابو طفیل عامر بن واثله (رضی الله عنه) صحابی نبی محمد است ، دروغگو می دانیم. خدا هدایت کننده به حقیقت است ما استدلال خود را از این حدیث متواتر و معتبر و صحیح استخراج می کنیم که در آن محمد گفته است: پس از صد سال از این زمان (از زمان اظهار نظر محمد) هیچ کس روی زمین باقی نخواهد ماند که در زمان این بیانیه حضور داشته. » [1] پس از مرگ عامر هر که ادعا کرد که صحابه است ، او دروغگو بوده. درست این است که ابوالطفیل عامر بن واثله در 110 هجری درگذشت. و او آخرین نفر از همه صحابه بود که مرد. [2]
ابو الطفیل عامر بن وائلہ، صحابہ کرام میں وفات پانے والے آخری صحابی تھے۔ ابو الطفیل عامر بن وائلہ بن عبد اللہ بن عمر واللیثی،مکہ کے رہنے والے تھے اور جس سال جنگ احد ہوئی اس سال یہ پیدا ہوئے انہوں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ ) کی زندگی کے آٹھ سال درک کیے ہیں۔ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’کیونکہ ہم تمام اہلِ حدیث اس شخص کو قطعی طور پر جھوٹا سمجھتے ہیں جو ابو الطفیل عامر بن واثلہ (رضی اللہ عنہ) کے بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کرے اور اللہ ہی حق کی طرف ہدایت دینے والا ہے۔ ہم اس صحیح متواتر حدیث سے حجت پکڑتے ہیں جس میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: سو سال کے بعد۔ آپ کے قولِ مذکور کے وقت سے لے کر۔ روئے زمین پر کوئی شخص باقی نہیں رہے گا، جو اس قول کے وقت موجود تھا۔‘‘ا[1]سیدنا ابو الطفیل رضی اللہ عنہ کے بعد روئے زمین پر کسی صحابی کے زندہ رہنے کا کوئی ثبوت نہیں اور جن لوگوں نے اس دور کے بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا، وہ جھوٹے تھے۔صحیح یہ ہے کہ ابو الطفیل عامر بن واثلہ 110ھ میں فوت ہوئے اور تمام صحابۂ کرام میں آخری وفات پانے والے آپ ہی تھے۔ [2]

ضحاک بن عبدالله مشرقی از یاران حسین بن علی بود که در واقعه عاشورا در کربلا حضور داشت. وی با سپاه عمر بن سعد جنگید و چند نفر را کشت و در واپسین لحظات روز عاشورا بعد از نماز ظهر از نبرد گریخت. ضحاک بن عبدالله از گزارشگران واقعه کربلا و اهل کوفه بود.
ضَحّاک بن عبد اللہ مشرقی، امام حسین (ع) کے اصحاب میں سے تھا جو واقعہ عاشورا کے روز کربلا میں موجود تھا۔ اس نے سپاہ عمر بن سعد سے جنگ کی اور چند افراد کو قتل کرنے اور نماز ظہر کے بعد روز عاشورا فرار اختیار کی۔ ضحاک بن عبد اللہ واقعہ کربلا کے راویوں میں سے ہے نیز اس کا تعلق کوفہ سے تھا۔

ضحاک خود نقل کرده است که دو نفر از دشمن را که پیاده می‌جنگیدند، به قتل رسانده و دست یکی دیگر را از تنش قطع کرده که حسین هم در حق او دعا کردند و فرمودند: «سست نگردی، دستت بریده نشود. خداوند از اهل بیت رسول ، بهترین پاداش‌ها را به تو ارزانی دارد.»[1]
ضحاک نے خود نقل کیا کہ اس امام (ع) کے سامنے دو جنگ کرنے والوں کو واصل جہنم کیااور ایک اور شخص کا ہاتھ قطع کیا تو امام نے اس کے حق میں دعا کی اور فرمایا: سستی نکرو مبادا ہاتھ قطع نہ ہو جائے۔ خداوند اہل بیت رسول (ص) سے بہترین پاداش تمہیں عطا کرے گا۔[3].

ابومخنف از عبدالله بن عاصم الفایشی از ضحاک بن عبدالله مشرقی روایت کرده است:
ابومخنف نے عبداللہ بن عاصم الفائشی کی زبانی ضحاک بن عبد اللہ مشرقی سے نقل کیا:

«وقتی دیدم یاران امام حسین (ع) کشته شدند و نوبت خانواده اش فرا رسید و تنها سوید بن عمرو خاتمی و بشیر بن عمرو حضرمی با آنها باقی ماند ، به خدمت اباعبدالله آمدم و گفتم: یابن رسول الله! یادت هست چه توافقی داشتیم؟ حضرت فرمود: بله ، یادم است ، از تو بیعت برمی دارم. چگونه از دست این ارتش فرار خواهی کرد؟ ضحاک گفت: من اسب خود را در چادر پنهان کرده ام ، به همین دلیل پیاده با آنها جنگیده ام.
«جب میں نے دیکھا کہ اصحاب امام حسین (ع) قتل ہو گئے اور ان کے خاندان کی باری آگئی اور ان کے ساتھ صرف سوید بن عمرو خثعمی اور بشیر بن عمرو حضرمی رہ گئے ہیں تو میں ابا عبداللہ کی خدمت میں آیا اور کہا: یابن رسول اللہ! آپ کو یاد ہے کہ ہمارے درمیان کیا معاہدہ ہوا تھا؟ حضرت نے فرمایا: ہاں یاد ہے، میں نے اپنی بیعت تم سے اٹھا لی ہے۔ تم کس طرح اس لشکر سے فرار کرو گے؟ ضحاک نے کہا: میں نے اپنا گھوڑا خیمہ میں مخفی کیا ہوا ہے اسی لیے تو میں نے پیادہ ان سے جنگ لڑی ہے۔

ضحاک راوی کوفه و راوی واقعه کربلا است. مورخانی مانند طبری بیعت یاران حسین را در شب عاشورا و ابراز وفاداری صحابه را بیان کرده اند. [1]
ضحاک کوفہ کا محدث اور واقعہ کربلا کا راوی ہے۔ طبری جیسے مؤرخین نے شب عاشور کو اصحاب امام حسین کی بیعت اور اصحاب کی طرف سے اظہار وفاداری کو ضحاک کی زبانی نقل کیا ہے۔[5]