+Abdul Karim Baloch is Badin Sindh He was a Great people and Honest Shop Manufacturer This is creating a city of Badin Shadi Large He is Very Very Great people He was Bran 1998 These mobiles are trade This shop Badin is a city in Shadi Large This work is mobile, Excavating take He is KT Mir Muhammad Lund Add translation
عبدالکریم
Abdul Karim Baloch is Badin Sindh He was a Great people and Honest Shop Manufacturer This is creating a city of Badin Shadi Large He is Very Very Great people He was Bran 1998 These mobiles are trade This shop Badin is a city in Shadi Large This work is mobile, Excavating take He is KT Mir Muhammad Lund
عبد الکریم (1863 -1909) ملکہ وکٹوریہ کے منشی تھے۔ کچھ کہتے ہیں کہ وہ ملکہ کے اردو کے استاد بھی تھے۔ ان کو دربار میں اردو "کلرک" کا عہدہ بھی حاصل تھا۔ حافظ عبدالکریم صاحب نے ملکہ وکٹوریہ کے ساتھ پندرہ (15) سال کام کیا۔ 1887 میں ہندوستان سے دو (2) ہندوستانیوں کو ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی پر انگلستان لایا گیا۔
Abdul Karim Baloch is Badin Sindh He was a Great people and Honest Shop Manufacturer This is creating a city of Badin Shadi Large He is Very Very Great people He was Bran 1998 These mobiles are trade This shop Badin is a city in Shadi Large This work is mobile, Excavating take He is KT Mir Muhammad Lund
منشی حافظ عبد الکریم کو شروع میں ملکہ وکٹوریہ کے مطبخ خانے میں بیرا لگایا گیا تھا. ملکہ ان کے کاموں ،سچائی اورمہارت متاثر تھی۔ لہذا وہ جلد ہی ملکہ کے منشی کے عہدے پر مقرر ہو گئے- انھوں نے ملکہ کو اردو زبان کے اسباق دیے ۔ اور ہندوستان کے رسوم و رواج سے متعارف کروایا۔ بعد میں وہ ملکہ کے "ذاتی کلرک" مقرر ہوئے۔ اور کچھ ہی دنوں بعدترقی کرکے انکا مقدر بن گئی۔ 1895 میں انھیں ملکہ وکٹوریہ نے " آرڈر آف انڈین ایمپریل" اور 1899 میں "رائل وکٹوریہ آرڈر" کے خطاب سے نوازہ۔ ملکہ وکٹوریہ نے منشی صاحب کو آگرہ میں اراضی بھی عطا کی۔ ملکہ وکٹوریہ کے انتقال کے بعد ان کے صاحب زادے شاہ ایڈورڈ ہفتم کو منشی عبد الکریم کو دربار سے نکال دیا اور انھیں واپس ہندوستان بھجوادیا۔ مگر شاہ ایڈورڈ ہفتم نے ملکہ وکٹوریہ کے جنازے پر منشی عبد الکریم کو ملکہ وکٹوریہ کا چہرہ دیکھنے کی اجازت دے دی تھی۔ ہندوستان واپس آکر آگرہ کے "کریم لاج" میں قیام پذیر ہوئے۔ 1909 میں ان کا انتقال اسی گھر میں ہوا۔ان کے انتقال کے بعد منشی صاحب اور ملکہ وکٹوریہ کے حوالے سے کئی کہانیاں گردش میں آئیں۔ ان کہانیوں کی سچائی حقیقت کا مجھے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل سکے۔
Javed Hayat Kakakhel (born: 1958) is a famous Khowar poet from Golaghmuli Valley, of Ghizer District Gilgit-Baltistan. He also writes poetry in Urdu language.
جاوید حیات کاکاخیل گلگت بلتستان کے ضلع غذر سے تعلق رکھنے والے شاعروں میں سے ایک ہیں۔ آپ کھوار زبان کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی شاعری کرتے رہتے ہیں۔
Early life
ولادت اور ابتدائی زندگی
Javed Hayat Kakakhel got his primary education from a school in village and then moved to Gupis where he lived in Governor House and passed middle education. After that he went to Sir Syed School Gilgit (formerly was known as High School No. 1). He choose Teaching as a profession and made a name in it.
آپ نے ابتدائی تعلیم غذر کے ایک پرائمری سکول سے حاصل کی۔ ثانوی تعلیم کے لِے آپ کو گوپس منتقل ہونا پڑا۔ جہاں آپ گورنر گوپس راجہ حسین علی خان کے ساتھ رہتے ہوئے آٹھویں جماعت پاس کر لی۔ پھر گلگت منتقل ہوئے جہان ہائی سکول نمبر ۱ ۔۔۔ موجودہ سر سید احمد خان سکول۔۔۔۔۔ سے میٹرک کی تعلیم حاصل کر لی۔ پیشے کے لیے آپ نے تدریس کے شعبے کو اختیار کیا اور اس شعبے میں بڑا نام کمایا۔ آپ کے شاگرد انجینئرز، ڈاکٹرز، وکیل، فوجی افسر اور بیوروکریٹ بن کر سامنے آنے لگے ہیں۔
Family background
خاندانی پس منظر
To be translated...
جاوید حیات کاکاخیل ضلع غذر کے کوہ غذر کے چارویلو نیت قبول حیات کاکاخیل کے سب سے چھوٹے فرزند ہیں۔ ایف سی آر کے خاتمے کے بعد آپ کے والد سے عہدہ جب چھن گیا اس وت آپ کی عمر صرف تیرہ سال تھی۔ صاحبزادوں میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے بڑا لاڈ پیار ملا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد شاعری کو اپنا لیا اور وہاں بھی نام کمایا۔ آپ کا تعلق کاکاخیل خاندان سے ہے۔ ولی کامل کے اولاد ہونے کے ناتے انہں اکثر ولئے بھی کہا جاتا ہے۔ اس خاندان کا پورا شجرہ نسب ان کے والد نیت قبول حیات کاکاخیل نے لکھی ہوئی صورت میں اپنے خاندان میں محفوظ کر رکھا ہے۔ غذر کی تاریخ میں ان کے خاندان کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ موجودہ دور میں ان کے خاندان کا ایک فرزند بلبل حیات کاکاخیل نے ضلع غذر کی سیاسی اور سماجی تاریخ مِیں کافی نام پیدا کیا۔ اور حلقہ غذر سے گلگت بلتستان ضلعی کونسل کا رکن بھی رہا ہے۔
Poetry
شاعری
To be translated...
جاوید حیات کاکاخیل کی ابتدائی شاعری کھوار زبان کے مشہور رسالہ جمہور اسلام کھوار میں شائع ہوتے رہتے تھے۔ حال ہی میں انہوں نے اپنی شاعری کی بے مثال شاہکار گرزین کی طباعت کا کام بھی مکمل کروایا۔ یہ کتاب گلگت بلتستان میں کھوار زبان و ادب کی اولین کتاب ہے۔ کتاب میں جاوید حیات کاکاخیل نے مختلف صنف میں شاعری کی ہوئی ہے۔ ان کی شاعری کا محور دنیا کی تلخیان ہے۔ اور اسی میں ہی ان کی اپنی شاعری بھی نشر ہوتے رہتے ہیں۔ جاوید حیات کاکاخیل کھوار کے گلستان کو سر سبز کرنے میں کوئی کوتاہی ہییں کرتے۔ جاوید حیات کاکاخیل اکثر کھوار میں لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں۔ ان کو شاعری کے تمام اصناف پر عبور حاصل ہے۔ اگر چہ گلگت کی زبانیں ذخیرہ الفاظ کے حوالے سےتنگ دامنی کا شکار ہیں، مگر جاوید حیات نے ذخیرہ الفاظ کو ایک نئی طرز دے کے اس کمی کو پورا کیا ہے۔ ان کی کتاب گرزین ہی سے پتا چلتا ہے کہ یہ ایک گلدستہ ہے۔ گلدستہ اس لیے کہ اس میں ہر صنف کی شاعری دیکھنے کو ملتی ہے۔ حمد، نعت، ملی نغمے، مرثیے ، نظم اور غزلیات نے مل کر رنگ برنگی کا سماں پیدا کیا ہے۔ غذر میں کھوار شاعروں میں گل اعظم خان گل، خوش بیگیم کے عاشق آمان جیسے شاعر ہو گزرے ہیں۔ مگر ان کی شاعری لکھی ہوئی صورت میں موجود نہیں۔ مگر جاوید حیات کاکاخیل نے ان کی تاریخ بینی اور شاعری پر کافی تحقیق کیا ہے۔
Khowar Broadcast from Radio Pakistan Gilgit
ریڈیو پاکستان گلگت سے کھوار زبان کی نشریات
To be translated...
جاوید حیات کاکاخیل کی ابتدائی شاعری کھوار زبان کے مشہور رسالہ جمہور اسلام کھوار میں شائع ہوتے رہتے تھے۔ حال ہی میں انہوں نے اپنی شاعری کی بے مثال شاہکار گرزین کی طباعت کا کام بھی مکمل کروایا۔ یہ کتاب گلگت بلتستان میں کھوار زبان و ادب کی اولین کتاب ہے۔ کتاب میں جاوید حیات کاکاخیل نے مختلف صنف میں شاعری کی ہوئی ہے۔ ان کی شاعری کا محور دنیا کی تلخیان ہے۔ اور اسی میں ہی ان کی اپنی شاعری بھی نشر ہوتے رہتے ہیں۔
Javed Hayat Kaka Khel
جاوید حیات کاکاخیل
Lyrics
شاعری
وطن ہمارا آزاد کشمیر وطن ہمارا آزاد کشمیر قومی ترانہ anthem of Template:پرچم Music sample [[:File:وطن ہمارا آزاد کشمیر|وطن ہمارا آزاد کشمیر]] [[File:وطن ہمارا آزاد کشمیر|center|noicon]]
وطن ہمارا آزاد کشمیر وطن ہمارا آزاد کشمیر قومی ترانہ ترانہ آزاد کشمیر نمونہ موسیقی [[:File:وطن ہمارا آزاد کشمیر|وطن ہمارا آزاد کشمیر]] [[File:وطن ہمارا آزاد کشمیر|center|noicon]]
Watan Hamara Azad Kashmir is the state anthem adopted by Azad Kashmir.
وطن ہمارا آزاد کشمیر آزاد کشمیر کا قومی ترانہ ہے۔
ڈیلائٹ Type Industry Genre ہوم اپلائنسز Founded 1963 (54 years ago) (1963) Founder شیخ محمد نقی انعام الہی شیخ (بزنس ایگزیکٹیو) Headquarters Area served Key people جناب آفتاب انعام (چیف 2017) جناب احسن انعام جناب فیصل انعام جناب فاروق انعام جناب ہارون انعام جناب ہارس انعام Products فریج ایئر کنڈیشنر مائکروویو اوون پانی ڈسپینسر واشنگ مشینیں ڈیپ فریزر بجلی اور گیس پانی کی ہیٹر بجلی پانی کی ہیٹر گیس پانی کی ہیٹر گیس کھانا پکانے کی حد گیس کا چولہا گیس روم ہیٹر فوری گیس پانی کی ہیٹر کمرہ کولر خلا کلینر پانی کے کولر Owner Number of employees 601 لوگ ( ) Parent
ڈیلائٹ قسم شرکت عام صنعت الیکٹرونکس اور گھریلو آلات نوع ہوم اپلائنسز قیام 1963 (1963) بانی شیخ محمد نقی انعام الہی شیخ (بزنس ایگزیکٹیو) صدر دفتر لاہور، خطۂ پنجاب علاقہ خدمت پاکستان کلیدی لوگ جناب آفتاب انعام (چیف 2017) جناب احسن انعام جناب فیصل انعام جناب فاروق انعام جناب ہارون انعام جناب ہارس انعام مصنوعات فریج ایئر کنڈیشنر مائکروویو اوون پانی ڈسپینسر واشنگ مشینیں ڈیپ فریزر بجلی اور گیس پانی کی ہیٹر بجلی پانی کی ہیٹر گیس پانی کی ہیٹر گیس کھانا پکانے کی حد گیس کا چولہا گیس روم ہیٹر فوری گیس پانی کی ہیٹر کمرہ کولر خلا کلینر پانی کے کولر مالکان جناب انعام الہی شیخ ملازمین 601 لوگ اصل مالک شیخ محمد نقی نعرہ اپنی زندگی بدلو ویب سائٹ ڈیلائٹ کنٹرول کمپنی
deliteڈیلائٹ ہاؤس ان کے والد شیخ محمد نقی کی مدد کے تحت جناب انعام الہی شیخ سے 1963 میں قائم کیا گیا. خدا کے فضل سے آج ڈیلائٹ ہوم آلات اور ان کے اجزاء میں معروف کمپنی میں سے ایک ہے. ڈیلائٹ گروپ آلات کمپنیوں پر مشتمل ہے. ویکیپیڈیا پر صفحہ کو لکھنے کے لیے ہمارے ساتھ تحاون کیا ہیں۔ محمد عاشق علی جو حجرہ شاہ مقیم سے تحلق رکھتے ہیں۔ [1] [2]
ڈیلائٹ ہاؤس ان کے والد شیخ محمد نقی کی مدد کے تحت جناب انعام الہی شیخ سے 1963 میں قائم کیا گیا. خدا کے فضل سے آج ڈیلائٹ ہوم آلات اور ان کے اجزاء میں معروف کمپنی میں سے ایک ہے. ڈیلائٹ گروپ آلات کمپنیوں پر مشتمل ہے. ویکیپیڈیا پر صفحہ کو لکھنے کے لیے ہمارے ساتھ تحاون کیا ہیں۔ محمد عاشق علی جو حجرہ شاہ مقیم سے تحلق رکھتے ہیں۔ [1] [2]
Delite
ڈیلائٹ
This article is a stub. You can help Wikipedia by expanding it. v t e
یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔
Formation: Al-Madina Islamic Research Center is a research-based, educational, training-oriented and welfare-provisioning institute. The establishment of this institution is based on the vision of a select group of Islamic scholars returning after completing their education at the Islamic University of Madina. Their vision was to form an institute that called people towards Tawheed (monotheism), eliminates Shirk (polytheism) and Bida’h (innovation), defending the Sunnah of the Messenger (ﷺ) on every front and serving and aiding the religion of Islam according to the methodology of our pious predecessors.
المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر’’الجامعۃ الاسلامیۃ بالمدینۃ المنورۃ‘‘( اسلامک یونیورسٹی ، مدینہ منورہ )سے تعلیم حاصل کرکے آنے والے علماء کرام کی اس سوچ وفکرکی عملی تعبیرہے جس کا مقصداللہ تعالیٰ کے بندوں کو عقیدہ توحید کی دعوت دینا ، شرک وبدعات کا خاتمہ کرنا، سنتِ رسول اللہﷺ کا ہر محاذپر دفاع کرنا اور منہج سلف کے مطابق دینِ اسلام کی خدمت ونصرت کرناہے۔
Vision:“Formation of a global institute which prepares and develops such capable individuals who while keeping in mind all the basic social requirements across all walks of life, utilizing the noble methodology of our pious predecessors and in adherence with the guidelines of the Quran and the Sunnah can train and guide the Muslim Ummah in the fields of education, research, training and Islamic propagation”
وژن:ايسے عالمی ادارے کا قيام جس کے ذريعہ وہ قابل و باصلاحيت افراد تيار کيے جائیں جو معاشرے کے تمام تقاضوں کو سامنےرکھتے ہوئے زندگی کے تمام شعبہ جات میں منہج سلف صالحین کے مطابق قرآن و سنت کی روشنی میں تعليمی،تحقيقی،دعوتی اورتربيتی لحاظ سے امت کی رہنمائی کرسکیں۔
Aims and Targets:
اہداف ومقاصد:
To provide a platform to the returning graduates and scholars of the Islamic University of Madina, whereby they could utilize their individual skills and work and contribute to the various sectors of the society. Aiding, Propagating and spreading the religion of Islam and the Aiding, Propagating and spreading the religion of Islam and the doctrine of Tawheed (the oneness of Allah (عزوجل). Providing a reference-based response to the ideologies presented and propagated by preachers of false doctrines and beliefs and the deniers of Hadith.
اسلامک یونیورسٹی،مدینہ منورہ سے تعلیم حاصل کرکے آنے والے طلباء وعلماءکو ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا جہاں سے وہ اجتماعی نظم کے تحت اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق معاشرہ کے مختلف شعبہ جات میں خدمات انجام دے سکیں۔ دین اسلام ، عقیدہ توحید کی حمایت ونصرت، ترویج وتبلیغ کرنا۔ عقائدِ باطلہ، فتنہ انکارِ حدیث، لبرل وسیکولرازم ودیگرباطل وملحدافکارونظریات کا مدلّل علمی ردپیش کرنا۔ معاشرہ کے ہر شعبہ میں دعوتی وتربیتی کام کا انجام دینا بالخصوص وہ شعبے جن میں علمی حلقوں کی جانب سے پہلے توجّہ کم رہی ہو۔ تبلیغ ِ دین کے لیےوسائل ابلاغ میں سے ہر مؤثر وسیلہ کو اختیار کرنا اور اُس کے جائز استعمال کو ہرممکن آسان اور عام فہم بنانا۔ مختلف شعبوں میں رفاہی وخدمتِ خلق کے فرائض انجام دینا۔
The Chairman
سرپرستِ اعلیٰ:
The Chairman of Al-Madina Islamic center is Allama Abdullah Nasir Rahmani (hafizahulla): The Shaikh (hafizahulla) is a graduate of the Imam Mohammad Bin Saood Islamic University Riyadh. He is also the founder, head and Shaikh-ul-hadith at Karachi’s renowned Islamic educational institute “Al-Mahd-as-Salafi”. The respected Shaikh is also counted amongst the most senior, well-known and well-respected scholars of Pakistan.
المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر(مرکز المدینہ العلمی) کے سرپرست اعلیٰ محدثِ دیارِسندھفضیلۃ الشیخ العلامہ عبد اللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ ہیں۔
Council of scholars
مجلسِ علمی:
The institute has a council of scholars (Majlis-e-Ilmi) which consists of eight of the most well-known Islamic scholars in Pakistan. They lead and supervise all research and educational work undertaken by the institute and grant their scholarly advice where needed.
ادارے کی ایک مجلس علمی ہے جوپاکستان بھرکےسات(7) ممتاز ونامور اہلِ علم پر مشتمل ہے۔
The current majlis-e-ilmi consists of the following respected Islamic scholars:
جن کا کام ادارے کے تحت جاری اہم تعلیمی وتحقیقی امورکی سرپرستی ونگرانی کرنا،اور علمی رہنمائی کرناہے۔نیز دیگر پیچیدہ وجدیدمسائل ونوازل میں مفید علمی ونوازل رہنمائی وتحقیقات تیار کرنا ہے۔
1. Shaikh Irshad ul Haq Asari (hafizahullah):
1. فضیلۃ الشیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ
(teacher and Mufti at Jamia-Salafiyyah and Markaz At-Tarbiyyah Al-Islamiyah Faisalabad, and Shaikh-ul-Hadith, Mufti and head at Jamia-al-Uloom-al-Asariyyah Faisalabad).
(استاذمرکزالتربیہ فیصل آباد، ورئیس ادارہ علوم اثریہ ، فیصل آباد)
Personal details
حالات زندگی
Political background of family
سیاسی خاندانی پس منظر
Syed Yawar Abbas Bukhari Newly Elected Member of The Provincial Assembly of the Punjab Constituency PP-01 (Attock Personal details Born 10 October 1864 Attock Nationality Pakistani Political party = Pakistan Tehreek-e-Insaf =
سید یاور عباس بخاری صوبائی اسمبلی پنجاب کا منتخب رکن حلقہ پی پی-۰۱ (اٹک) ذاتی تفصیلات پیدائش 10 اکتوبر 1964 اٹک قومیت پاکستانی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف
Syed Yawar Abbas Bukhari is a Pakistani politician who is recently elected as the member of The Provincial Assembly of the Punjab from Attock City.
سید یاور عباس بخاری (انگریزی: Syed Yawar Abbas Bukhari) ایک پاکستانی سیاست دان جو اٹک شہر سے صوبائی اسمبلی پنجاب کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔
Syed Yawar Abbas Bukhari was born on 10 October 1964,in a religious and political family of Attockk, "Sadaat-e-Kamra". After earlier education from the Berne Hall School Abbottabad and went to the UK for higher education
سید یاور عباس بخاری 10 اکتوبر 1964 کو اٹک کے ایک مذہبی اور سیاسی خاندان “ سادات کامرہ “ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم برن ہال اسکول ایبٹ آباد سے حاصل کی اور اعلی تعلیم کے لئے برطانیہ گئے۔
Syed Yawar Abbas Bukhari's family has a great political background. Zulfiqar Ali Bhutto, Jam Sadiq Ali, Muammar Gaddafi and many other international leaders were close friends of his father, Syed Manzoor Hussain Bukhari,.
سید یاور عباس بخاری کا خاندان شاندار سیاسی پس منظر رکھتا ہے۔ آپ کے والد سید منظور حسین بخاری، ذوالفقار علی بھٹو، جام صادق علی ،کرنل معمر قذافی اور دیگر کئی عالمی راہنماؤں کے قریبی رفقاء میں سے ہیں۔
Yawar Bukhari's uncle Syed Ejaz Hussain Bukhari was active in politics since 1985. He was first elected the District Council Attock's chairman and then came into provincial politics and was constantly elected till the last election.This time, due to his age, his nephew Yawar Bukhari took his place. His other uncle, Syed Wajid Hussain Bukhari, has been the former federal minister, whose son Zulfi Bukhari is an active member of Pakistan Tehreek-e-Insaf and close friend of Imran khan.
یاور بخاری کے چچا سید اعجاز حسین بخاری 1985 سے سیاست میں سرگرم رہے۔ وہ سب سے پہلے ضلع کونسل اٹک کے چیئرمین منتخب ہوئے اور اس کے بعد صوبائی سیاست میں وارد ہوئے اور گزشتہ الیکشن تک مسلسل منتخب ہوتے رہے۔ اس بار ضعیف العمری کی بنا پر اپنے بھتیجے یاور بخاری کے حق میں دستبردار ہوگئے۔ آپ کے دوسرے چچا سید واجد حسین بخاری سابق وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔ اور ان کے بیٹے زلفی بخاری تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کے قریبی دوست اور تحریک کے سر گرم کارکن ہیں۔
User:Bigbukhari/Syed Yawar Abbas Bukhari
سید یاور عباس بخاری
Waqar Yousuf Azeemi وقار یوسف عظیمی معلومات شخصیت قومیت Pakistani عملی زندگی دور 1958ء till Now صنف اسلام ، روحانیت ، تصوف موضوعات تصوف ، بین المذاہب رواداری ، خدمت خلق ، روحانی علوم کا فروغ ، روحانی و معاشرتی اقدار ادبی تحریک سلسلۂ عظیمیہ، آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی، کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز اعزازات کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز کے نائب صدر باب ادب ترمیم
وقار یوسف عظیمی وقار یوسف عظیمی معلومات شخصیت قومیت پاکستانی عملی زندگی دور 1950ءتاحال صنف اسلام ، روحانیت ، تصوف موضوعات تصوف ، بین المذاہب رواداری ، خدمت خلق ، روحانی علوم کا فروغ ، روحانی و معاشرتی اقدار ادبی تحریک سلسلۂ عظیمیہ، آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی، کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز اعزازات کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز کے نائب صدر باب ادب ترمیم
He is son of famous Sufi Saint Khawaja Shamsuddin Azeemi. He has been trained by Huzoor Qalander Baba Auliya since childhood. This imminence and training became the motivation of Dr. Waqar Yousuf Azeemi’s extraordinary concentration in spiritual studies, medicine, parapsychology, spiritual treatment and Sociology.
وقار یوسف عظیمی معروف قلم کار، صحافی، روحانی دانشور اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مدیر، پاکستان کے معروف صوفی بزرگ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کے صاحبزادے ہیں۔ وقار یوسف عظیمی کی تحریروں میں روحانی علوم، سیرت النبیﷺ، تصوف، طب، مابعد النفسیات، روحانی علاج، عمرانیات جیسے موضوعات شامل ہیں۔ آپ1981ء سے شعبۂ طب اور صحافت سے وابستہ ہیں۔ آپ روحانی ڈائجسٹ کے مدیر اور دیگر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
He is the editor of “Roohani Digest” monthly, as well as the author of many Books. He has been Contributed through his columnss in most circulated newspaper Daily “Jang” & Daily “Express”. His articles have been published in other Pakistani newspapers and Magazines as well including “The News” Daily, “The Nation” Daily, “Qaumi Akhbaar” Daily, “Tijarat” Lahore Daily, “Ehsas” Rawalpindi Daily, “Azam” Lahore weekly.
1986ء سے آپ پاکستان کے کثیر الاشاعت اخبار روزنامہ جنگ کے کالم نگار ہیں، سال 2016 اور 2017 میں ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی کے کالم بعنوان حقوق العوام اور روشن راستہ روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہوئے۔اس کے بعد آپ کی تحریریں دوبارہ روزنامہ جنگ میں شایع ہونے لگیں۔ آپ کی تحریریں پاکستان کے دیگر اخبارات و رسائل میں بھی شائع ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی پاکستانی اخبارات کی تنظٰیم آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی (APNS) اور ایڈیٹر کی تنظٰیم کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹر (CPNE) میں کئی مرتبہ عہدوں پر منتخب ہوئے ہیں۔[1]
Radio Channel F.M 101 has aired his weekly program “ Mashwara Yeh Hay” for many years. Dr. Waqar Yousuf Azeemi delivered many lectures on Sufism and sub-topics in many educational institutions such as Karachi University, KASBIT, G.C University Faisalabad, etc. Dr. Waqar Yousuf Azeemi has been selected for different designations in All Pakistan News paper society (APNS) and Council of Pakistan Newspaper Editors (CPNE).
کراچی میں ریڈیو چینل ایف ایم 101 سے ہر ہفتہ مسائل اور بیماریوں کے روحانی علاج پر مبنی پروگرام مشورہ یہ ہے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مختلف معاملات پر تقاریر پروگرام شمع ہدایت میں پیش کی جاتی رہی ہیں۔ ٹی وی چینلز لبیک، ہم اور رنگ ٹی وی سے مختلف موضوعات پر آپ کے پروگرامز نشر ہوئے۔ اس کے علاوہ جیو ٹی وی پر پروگرام کلینک آن لائن اوررنگ ٹی وی پر خواب اور تعبیر کے نام سے ایک سلسلہ وار پروگرام پیش کیا گیا۔ لبیک ٹی وی پر روحانی مشوروں پر مبنی پروگرام روحانی علاجاور اپنا چینل پر تہاڈے مسائل انہاں داں حل کے نام سے ہفتہ وار پروگرام پیش کیا گیا۔ اس کے علاوہ ہم ٹی وی، پی ٹی وی، سماء ٹی وی اور کیپیٹل ٹی وی پر مختلف موضوعات ٹالک شوز میں بطور مہمان بھی شریک رہے ہیں۔
Silsila-e-Azeemia ki Taleemat (سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات) 2. Suffah (صفّہ) 3. Silsila Azeemia aur us ki Elmi-o-Samaaji Khidmaat ka Tehqiqi Jaiza (سلسلہ عظیمیہ اور اس کی علمی و سماجی خدمات کا تحقیقی جائزہ) 4.
علاوہ ازیں آپ نے مختلف تعلیمی اداروں میں تصوف اور ذیلی موضوعات پر لیکچر بھی دیے ہیں۔ مختلف سیمنار ،ورکشاپ میں آپ نے شرکت کی ہے۔
Waqar Yousuf Azeemi
وقار یوسف عظیمی
The word 'education' in Urdu, in two distinct ways, is a term in other words, in non-meaningful words, the word of education can be used in both cases and in plural form, and in both cases, messages, teaching, instruction, and instruction Gives meaning For example, in the fields of education or teachings of Jesus, the teachings of Jesus's teachings or teachings and teachings of Christianity, but in literally, education or education, the area is used in which mental and physical development of children and young people Training, civilization and creative forces, representations, social factors and motives, management courses, teachers, methodology, curriculum, quality education, history education, teacher training, and other such subjects are discussed.
اردو میں تعلیم کا لفظ، دو خاص معنوں میں مستعمل ہے ایک اصطلاحی دوسر ے غیر اصطلاحی، غیر اصطلاحی مفہوم میں تعلیم کا لفظ واحد اور جمع دونوں صورتوں میں استعمال ہو سکتا ہے اور آدرش، پیغام، درسِ حیات، ارشادات، ہدایات اور نصائح کے معنی دیتا ہے۔ جیسے آنحضرت کی تعلیم یا تعلیمات، حضرت عیسیٰ کی تعلیم یا تعلیمات اور شری کرشن کی تعلیمات، کے فقروں میں، لیکن اصطلاحی معنوں میں تعلیم یا ایجوکیشن سے وہ شعبہ مراد لیا جاتا ہے جس میں خاص عمر کے بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی نشو و نما، تخیلی و تخلیقی قوتوں کی تربیت و تہذیب، سماجی عوامل و محرکات، نظم و نسق مدرسہ، اساتذہ، طریقہ تدریس، نصاب، معیار تعلیم، تاریخ تعلیم، اساتذہ کی تربیت اور اس طرح کے دوسرے موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔
All the books have been written in the form of the subjects of education and philosophy of Allama Iqbal or philosophy, the general meaning of education is more than the term meaningful of education. What is written, instead of discussing the problems arising from the teaching, education or the problems of students and teachers, the same thing has been said in the same way as the fascinating art or philosophy of Iqbal, self-determination or imagination. Regarding the party, they are called to be a senior thinker or a great poet, although these are related to the meaning of education, rather than the common meaning of education, in which every elder and saint The philosophy or poet's message comes to teaching.
علامہ اقبال کے تعلیمی تصورات یا فلسفہ تعلیم کے متعلق کتب و مقالات کی شکل میں اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں تعلیم کے اصطلاحی مفہوم سے کہیں زیادہ تعلیم کے عام مفہوم کوسامنے رکھاگیا ہے۔ یعنی جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں درس و تدریس، تعلیم یا طلبہ و مدارس کے توسط سے پیدا ہونے والے مسائل سے بحث کرنے کی بجائے عام طور پر وہی باتیں کہی گئی ہیں جواقبال کے فکرو فن یا فلسفہ خودی و بے خودی یا تصور فرد و جماعت کے حوالے سے، ان کو ایک بزرگ مفکر یا عظیم شاعر ثابت کرنے کے لیے کہی جاتی ہیں، حالانکہ ان باتوں کا تعلق، تعلیم کے اصطلاحی مفہوم سے نہیں بلکہ تعلیم کے اس عام مفہوم سے ہے جس کے دائرے میں ہر بزرگ اور صاحبِ نظر فلسفی یا شاعر کا پیغام درس حیات آ جاتا ہے۔
It is said that Iqbal's concept of doing so is imperative for some reason and Iqbal aims to keep his philosophy behind self-determination or philosophical life in determining the goals of education. But Iqbal's general philosophy of life does not seem to be literally interpreted with education or philosophy of education or it is simply not appropriate to teach them a great thinker education or expert education based on these arguments. Because Qazi Ahmad Mian Akhtar said
مانا کہ اقبال کے تصور ِ تعلیم کے ضمن میں ایسا کرنا بعض وجوہ سے ناگزیر ہے اور اقبال کے مقاصد ِتعلیم کے تعین کے سلسلے میں ان کے فلسفہ خودی و بے خودی یا فلسفہ حیات کو بحرحال سامنے رکھنا پرتا ہے۔ لیکن اقبال کے عام فلسفہ حیات کو اصطلاحی معنوں میں تعلیم یا فلسفہ تعلیم سے تعبیر کرنا یا محض ان دلائل کی بنیاد پر انہیں ایک عظیم مفکر تعلیم یا ماہر تعلیم کہنا مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ اس لیے کہ بقول قاضی احمد میاں اختر جو نا گڑھی،
"Iqbal was neither a art education expert nor had he studied this art, nor did he write a book but he had not presented a permanent educational philosophy, which had been teaching at Professor College for some time. What"
” اقبال نہ تو فن ِ تعلیم کے ماہر تھے نہ انہوں نے اس فن کی تحصیل کی تھی، نہ اس موضوع پر انہوں نے کوئی کتاب لکھی بجز اس کے کہ کچھ مدت تک بحیثیت پروفیسر کالج میں درس دیتے رہے کوئی مستقل تعلیمی فلسفہ انہوں نے نہیں پیش کیا۔ “
Iqbal's concept of education
اقبال کا تصور تعلیم