بدر رفیقي (بالأمازيغية: ⴱⴰⴷⵔ ⵔⴰⴼⵉⴽⵉ ) من مواليد يوم 22 يوليه 1998 مغني مغربي، ولد في مدينة سيدي بنور بالمغرب.[1]
بدر رفیقی (بربر: ⴱⴰⴷⵔ ⵔⴰⴼⵉⴽⵉ ، (22 جولائی ، 1998) مراکش کے گلوکار ہیں ، جو مراکش کے شہر سیدی بنور میں پیدا ہوئے تھے۔[1]
مصادر
حوالہ جات
محمود تيمور ( القاهرة، 16 يوليه 1894 - لوزان، سويسرا، 25 اغسطس 1973) اديب مصرى كبير ، و من اهم كتاب القصه فى مصر ، من العيله التيموريه الادبيه. ابن العلامه احمد تيمور و اخو الاديب محمد تيمور و عمته عائشه التيموريه.
محمود تيمور ( قاہرہ، 16 جولائی 1894 - لوزان، سویٹزرلینڈ، 25 اگست 1973) مصری ادیب اور افسانہ نگار ، انہیں دور جدید کے عربی افسانے کا بابا آدم ، مختصر عربی کہانیوں کا پیشوا ، عرب کا موپاساں اور عرب کا شیکسپئیر بھی کہا جاتا ہے۔
اصدر كذا مجموعة قصص قصيره بتصور عيشة الطبقات الشعبيه المصريه زى " الشيخ سيد العبيط (1925)" ، و " رجب افندى " (1928) ، و " الحاج شلبى " ( 1930) و غيرها. و كتب روايات رومانسيه طويله زى " نداء المجهول " (1939) اللى كانت من المقررات المدرسيه فى مصر ، و " كليوباترا فى خان الخليلى " (1945) ، و "سلوى فى مهب الريح " (1947) ، و مسرحيات استوحاها من التاريخ القديم زى " اليوم خمر " (1956l).
محمود تیمور 16 جولائی 1894ء کو مصر میں شہر قاہرہ کے قدیم قصبے درب سعادۃ کے ایک ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ محمود تیمور کے دادا ترک نژاد مصری رئیس اسماعیل پاشا تیمور کتابوں کے شیدہ تھے، محمود تیمور کے والد ادیب علامہ احمد توفیق تیمور پاشا، پھوپو شاعرہ عائشہ تیمور اور بھائی محمد تیمور بھی اپنے عہد کی معروف ادیب تھے اور عربی ادب میں اپنا مقام رکھتے تھے۔ محمود تیمور نے زراعی اسکول میں تعلیم حاصل کی، لیکن ٹائیفائیڈ کے باعث تعلیم مکمل نہ کرسکے اور کئی ماہ بستر پر گذارے۔اس دوران گھر میں موجود کتابوں کو پڑھ کر عربی ادب میں دلچسپی پیدا ہوئی، خاندان کی طرف سے ادبی ذوق تو ورثے میں ملا تھا لہذا کم عمری میں ہی ان کا رجحان ادب کی طرف ہوگیا۔ ان کے بھائی محمد تیمور نے ادب میں ان کی خوب مدد کی۔
محمود تيمور كان فى أوقات كتيره بيحط عنوان اضافى لقصصه و رواياته هو " قصة مصرية " او " رواية قصصية مصرية ".
نوجوانی میں وزارت خارجہ میں ملازم ہوئے اور یورپ کا سفر کیا، جہاں مغربی ادب کا مطالعہ کیا۔ وہ موپاساں ، چیخوف اور خلیل جبران کی تحریروں سے متاثر ہوئے اور مصر واپس آکر جدید اور حقیقت پسند عربی ادب کی بنیاد رکھی اور عربی افسانے کو بین الاقوامی معیار دیا۔
اترجمتله قصص كتيره للغات اجنبيه. كان عضو فى المجمع اللغوى ، و كرمته الدوله المصريه بجايزتها التقديريه سنة 1963.
محمود تیمور القصۃ نامی رسالے مدیر بھی رہے جس میں ان کی کئی مختصر کہانیاں شایع ہوئیں، 1925 ء میں انہوں نے اپنی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ ‘‘ما تراہ العيون’’ شایع کیا۔ اس کے بعد انہوں نے مختصر کہانیوں کے تقریباً 15 مجموعے لکھے ۔
رواية ممتعة .. لغتها العربية رصينة كما هو المعتاد في كتابات ذلك العصر (تعود الرواية إلي ما قبل عام 1947 توقعت وأنا أطالع صفحاتها الاولى أنها ستعني بموضوع إجتماعي أو قصة عاطفية فطالعتها في البداية في إستهانة ، إلا أنني فوجئت بموضوعها الذي يعد مختلفا كل الإختلاف عما كان يطرحه كُتاب ذلك العصر ، سعدت بتلك المخيلة الخصبة لمحمود تيمور ، وأعجبني تناوله لقصة الحب العذري والأمل المفقود وغيرها من قضايا فسلسفية من خلال قصة شيقة تندرج تحت بند قصص المغامرات
محمود تیمور کی مقبول کہانیوں میں رجب افندی ، الحاج شلبۃ ، زامر الحي، فلب غانيۃ، فرعون الصغير، الشيخ سيد العبيط، مكتوب علی الجبين، شفاۃ غليظۃ، أبو علی الفنان، إحسان للہ اور كل عام وأنتم بخير شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے 7 عدد ناول (نداء المجہول، سلوی فی مہهب الريح، المصابيح الزرق)، سفرنامے(أبو الہول يطير، شمس وليل، جزيرۃ الحب)، ڈرامے (عوالي، سہاد أو اللحن التائہ، اليوم خمر، حواء الخالدۃ، صقر قريش) اور ادبی مضامین (فن القصص، مشكلات اللغۃ العربيہ)بھی تحریر کیے۔ ان کے کئی افسانوں پر مصر میں ڈرامے اور فلمیں بنائی گئیں۔ محمود تیمور کے کہانیوں کے ترجموں کو بھی کافی مقبولیت ملی۔ انہوں نے کئی بین الاقوامی ادبی کانفرنسوں میں شرکتیں کیں جن میں بیروت، دمشق کے علاوہ، جامعہ پشاور، پاکستان میں بھی تشریف لائے۔ انہیں دور جدید کے عربی افسانے کا بابا آدم ، مختصر عربی کہانیوں کا پیشوا ، عرب کا موپاساں اور عرب کا شیکسپئیر بھی کہا جاتا ہے۔ 25 اگست 1973ء کو 80 برس کی عمر میں محمود تیمور کا انتقال سوئزرلینڈ کے شہر لوزان میں ہوا۔