# ar/2010_09_28_7572_.xml.gz
# ur/2010_09_29_138_.xml.gz


(src)="1.1"> ردود فعل مضحكة على توقف فيسبوك الخميس الماضي !
(trg)="5.1"> فیس بک بند ہے !

(src)="1.2"> تعتبر شبكة فيسبوك أكبر شبكات التواصل الاجتماعي .
(trg)="5.4"> ڈی این ایس ناکامی : فیس بک بند ہے ۔

(src)="1.3"> حيث يبلغ عدد مستخدميها أكثر من ٥٠٠ مليون مستخدم .
(trg)="5.5"> جسکا مطلب ہے کہ آج سے نو ماہ بعد ، بہت سے بچوں کی پیدائش ہو گی ۔

(src)="1.4"> وقد توقف الموقع لبضع ساعات في الثالث والعشرين من سبتمبر ٢٠١٠ وذلك لمشاكل تقنية .
(trg)="7.2"> مجھے شبہ ہے اگر ہم نے یہ کیا ہوتا ، لیکن باہر ھال ہمیں اس سہرے کا دعوی کرنا چاہئے ، بے دین کو مارنا جوکہ تکلیف دہ ہے ، وغیرہ ، وغیرہ ،

(src)="1.5"> وانطلقت النكات عن توقف الموقع في تويتر حيث تم تداولها بين المئات من المستخدمين .
(trg)="12.1"> آج کے آغاز سے ہی فیس بک آپ میں سے کئی لوگوں کے لیے تقریبًا اڑھائی گھنٹوں کے لیے بند یا غیر رساں تھی ۔

(src)="1.6"> سنشارك فيما يلي بعضها :
(trg)="16.1"> ایک تبصرہ میں ، ایف ۔

(src)="2.1"> مصدر الصورة : Twitpic
(trg)="16.3"> ڈی نے لکھا :

(src)="3.1"> liammalone @ :
(trg)="19.5"> بھت اچھے فیس بک ٹیکیس ؛ )

# ar/2011_01_25_8388_.xml.gz
# ur/2011_01_11_354_.xml.gz


(src)="1.1"> السودان : استفتاء جنوب السودان بالصور
(trg)="1.1"> سوڈان : تصاویر میں جنوبی سوڈان کے ریفرنڈم

(src)="1.2"> جرت في الفترة بين التاسعة والخامسة عشر من يناير / كانون الثاني من العام 2011 لتحديد حالة جنوب السودان كجزء من السودان أو أن يكون دولة مستقلة .
(trg)="1.3"> یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ ، جنوبی حصہ سوڈان رہے گا یا آزاد ریاست رہے گا ۔

(src)="1.3"> هذه الصور توثق العلامات الفارقة في الاستفتاء .
(trg)="1.4"> یہ تصاویر جنوبی سوڈان کے تاریخی ریفرنڈم کی دستاویزکاری کر رہی ہیں ۔

(src)="2.1"> أنظر لإصبعي :
(trg)="2.1"> میری انگلی کی طرف دیکھو :

(src)="3.2"> com )
(trg)="4.3"> com / ) عبداللہ کی تصویر شائستگی ۔

(src)="4.1"> الطريق الطويل للتصويت :
(trg)="5.1"> ووٹ کرنے کے لیے لمبی واک :

(src)="5.1"> الطريق طويل للتصويت - تصوير آلان ماكدونالد
(trg)="7.1"> ووٹ کرنے کے لیے لمبی واک ۔

(src)="6.1"> العلم الجديد لجنوب السودان .
(trg)="9.1"> جنوبی سوڈان کا جنوبی جھنڈا ۔

(src)="7.1"> العلم الجديد لجنوب السودان - تصوير جيلوليو بيتروتشا
(trg)="11.1"> جنوبی سوڈان کا نئا پرچم .

(src)="8.1"> الانتظار الطويل للحرية :
(trg)="12.1"> آزادی کے لیے لمبا انتظار ۔

(src)="9.1"> صورة لوقوف المصوتون صابرين لساعات طويلة - تصوير لجنة الإغاثة الدولية
(trg)="14.1"> ووٹرز گھنٹوں کے لیے لائن میں امن سے کھڑے رہے ۔

(src)="10.1"> يظهر أن تلفزيون جنوب السودان لا يتكلم العربية :
(trg)="14.2"> بین الاقوامی ریسکیو کوم کی تصویر شائستگی ۔

(src)="11.1"> تلفزيون السودان يستطيع
(trg)="17.2"> صوت کی بجائے صویت ، ایس کی تصویر شائستگی ۔

(src)="12.1"> رسم توضيحي لكيفية التصويت :
(trg)="18.1"> بیلٹ کو کیسے مارک کریں :

(src)="13.1"> كيفية التصويت في الاستفتاء
(trg)="19.1"> ریفرینڈم میں بیلٹ کو کیسے مارک کریں ۔

(src)="14.1"> الانتظار للتصويت من أجل الحرية :
(trg)="20.1"> آزادی کے لیے ووٹ کرنے کا انتظار کر رہے ہیں :

(src)="15.1"> امرأة جنوب سودانية منتظرة للتصويت من أجل الحرية - تصوير ديفيد ماكنزي
(trg)="22.1"> جنوبی سوڈانی آزادی کے لیے ووٹ کرنے کا انتظار کر رہے ہیں ۔

(src)="16.1"> استمارات التصويت :
(trg)="23.1"> ووٹنگ کارڈز :

(src)="17.1"> استمارة التصويت للجنوبيين - تصوير أسامة
(trg)="24.1"> ووٹنگ کارڈزجو جنوبی سوڈانی ووٹ ڈالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔

(src)="18.1"> هل يمكنك إعطائي كرسي ؟ :
(trg)="25.1"> کیا تم میرے لیے ایک کرسی لاؤ گے ؟

(src)="19.2"> تصوير من اللجنة الدولية للإغاثة
(trg)="26.3"> بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی کی تصویر شائستگی ۔

# ar/2011_06_01_11444_.xml.gz
# ur/2011_05_29_453_.xml.gz


(src)="1.1"> المكسيك : معلمة تغني مع تلاميذها خلال إطلاق نار
(trg)="1.1"> میکسیکو : شوٹنگ کے دوران استانی طالب علموں کے ساتھ گاتی ہے

(src)="1.3"> ويظهر في الفيديو معلمة في روضة أطفال تغني مع تلاميذها لتهدأ من روعهم خلال إطلاق نار في مونيري بالمكسيك .
(trg)="1.2"> یو ٹیوب ویڈیو طالب علموں کے ساتھ ایک استانی کو گاتا دکھا رہی ہے انہیں مانٹیری میں شوٹنگ کے دوران پر سکون رکھنے کے لئے ، میکسیکو ہسپانوی بولنے والے ممالک میں تقریبا زہریلے مادے کے ذریعے پھیل گیا ہے ۔

(src)="2.1"> ونشاهد في الفيديو الذي سجلته المعلمة بواسطة كاميرا الهاتف المحمول فصل دراسي مليء بأطفال صغار مستلقين على الأرض .
(trg)="2.1"> ایک موبائل فون پر استانی کی طرف سے درج کی گئی ویڈیو جو بہت ہی چھوٹے بچوں کو فرش پر اوندھے پڑا دکھا رہی ہے ۔

(src)="2.5"> وهكذا بجعلها التلاميذ يغنون الأغنية تمكنت ليس فقط إبقائهم هادئين ولكن ايضاً تأكدت من بقاء رؤسهم على الأرض وذلك لأنها طلبت منهم أن يستلقوا على ظهورهم وينظروا للسماء وأفواههم مفتوحة .
(trg)="2.2"> استانی کو بچوں سے یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ وہ اپنے سر فرش پر لگا لیں جبکہ آس پاس گولیوں کی آواز سنائی دے رہی ہے ۔

(src)="3.1"> الإعلام المحلي كان قد ذكر أن المدرسة تقع في كولونيا نويفا إيستانزيولا ، على بعد بعد أمتار فقط من مجموعة مسلحة وصلت على سبعة شاحنات لقتل خمسة أشخاص في مركز سيارة أجرة .
(trg)="2.9"> وہ بچوں کے ساتھ گاتی ہے اور نہ صرف انہیں پر سکون رکھتی ہے بلکہ انکے سر فرش پر بھی لگائے رکھتی ہےجیسا کہ وہ ان کے مونہوںکو وسیع کھولا رکھنے کے ساتھ انکی توجہ آسمان کی طرف دلاتی ہے

(src)="3.2"> أما المعلمة فهويتها لم تعرف بعد ، لكنهم قد أطلقوا عليها " بطلة " واشتهرت في الإعلام وعند المشاهدين لإظهارها الشجاعة ، والشخصية ، والحب لمن هم تحت رعايتها .
(trg)="3.3"> اور استانی ، جسکی نشاندہی کا ابھی بھی نہیں پتا ہیرو کرار دی گئی ہے اور میڈیا اور اپنے ناظرین میں اپنی حوصلہ مندی ، کردار اور بچوں سے پیارکی وجہ سے پہچانی گئی ہے ۔

# ar/2011_05_29_11571_.xml.gz
# ur/2011_06_01_474_.xml.gz


(src)="1.1"> مصر : غرامة لمبارك لقطع الإنترنت أثناء الثورة
(trg)="1.2"> یہ پوسٹ ہماری خصوصی کوریج مصر 2011کے انقلاب کا حصہ ہے ۔

(src)="1.2"> هذا المقال جزء من تغطيتنا الخاصة بالثورة المصرية 2011 ألزمت المحكمة في مصر تغريم الرئيس المخلوع حسني مبارك ومسؤلين آخرين بدفع 450 مليون جنيه ( 90 مليون دولار ) لقطع خدمات الإنترنت والتليفون المحمول أثناء الثورة التي أسقطه ، هذا ما أُعلن اليوم .
(trg)="2.1"> عدالت نے مصری صدر حسنی مبارک اور دوسرے حکام پرانقلاب کے دوران انٹرنیٹ اور موبائل فون کی خدمات کو منقطع کرنے کے لئے دس لاکھ 540 مصری پونڈ ( 90 لاکھ ڈالر ) کا جرمانہ عائد کیاہے ۔

(src)="2.1"> الرئيس السابق حسني مبارك .
(trg)="3.2"> ان سے قومی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے لئے .

(src)="2.2"> الصورة لآجينسيا برازيل ( كرييتف كومنز اتريباساو 2ز .
(trg)="5.1"> یہاں پرکہانی کے بارے میں کچھ شہری میڈیا کے رد عمل ہیں ۔

(src)="2.3"> 2 .
(trg)="6.1"> ٹویٹر پر ، متحدہ عرب امارات کے کالم نگار سلطان القاعدہ قاسمی کی رپورٹ :

(src)="2.4"> 5 البرازيل )
(trg)="6.3"> # 25 جنوری

(src)="4.1"> وهذه بعض ردود الفعل التي نقلتها وسائل الإعلام .
(trg)="6.5"> یہ دیکھنے کے لیے کہ بگاڑ کو صارفین کے لیے فلٹر کیا جائے گا .

(src)="5.1"> ينقل الكاتب سلطان القاسمي الإماراتيّ على تويتر :
(trg)="7.1"> محمد حامدی پوچھتے ہیں کہ :

(src)="5.3"> ويضيف محمد يوسف :
(trg)="9.3"> 2برازیل )

(src)="5.4"> قضيتنا ضد شركات الاتصالات نتهمهم بالمشاركة الجنائية في قتل الثوار المصريين ، لحين اثبات انهم أبرياء بالوثائق http : / / www .
(trg)="9.4"> ہمیں اس 90لاکھ ڈالر سے کیا ملتاہے ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ کمپنیوںکو ہمیں نقصان کے لیے معاوضہ دینا چاہیے یا انہیں صرف پیسہ لینا چاہئے ؟

(src)="5.5"> anhri .
(trg)="10.1"> مبارک پر سزا مالی اثر کی بنیاد لگتی ہے ۔

(src)="5.8"> هذا المقال جزء من تغطيتنا الخاصة بالثورة المصرية 2011
(trg)="11.4"> ہ پوسٹ ہماری خصوصی کوریج مصر 2011کے انقلاب کا حصہ ہے ۔

# ar/2011_07_12_11962_.xml.gz
# ur/2011_06_04_491_.xml.gz


(src)="1.1"> سوريا : التظاهر لأجل مستقبل الأطفال
(trg)="1.1"> شام : بچوں کے مستقبل کے لئے احتجاج

(src)="1.2"> هذا المقال جزء من تغطيتنا الخاصة بثورة سوريا 2011 .
(trg)="1.2"> یہ پوسٹ ہماری خصوصی کوریج شام 2011 کے احتجاج کا حصہ ہے ۔

(src)="3.2"> مظاهرات يوم الجمعة الثالث من يوليو 2011 كانت مخصصة للأطفال السوريين ولأجل مستقبلهم .
(trg)="2.2"> آج جمعہ کا روز شامی بچوں اور ان کے مستقبل کے لیے احتجاج میں وقف ہے ۔

(src)="4.1"> على تويتر ، يشارك حساب الثورة السورية بملاحظة :
(trg)="4.2"> یہ ہمت یا جرات سے زیادہ لگتے ہیں ایسا کرنا ایک ۔

# ar/2012_04_23_21484_.xml.gz
# ur/2012_04_23_579_.xml.gz


(src)="1.1"> إيران : سيارة أحمدي نجاد والمرأة والعجوز جائع
(trg)="1.1"> ایران : احمدی نژاد کی گاڑی ، ایک عورت اور ایک بزرگ بھوکا آدمی

(src)="1.2"> أحدث شريط فيديو بث على الانترنت يظهر إمرأة وهي تقفز على سطح سيارة الرئيس الإيراني أحمدي نجاد ، بينما كان في زيارة إلى بندر عباس ( مدينة ساحلية في جنوب إيران ) في العاشر من نيسان / إبريل 2012 ضجة إعلامية كبيرة .
(trg)="1.2"> ایک انٹرنٹ ویڈیو جس میں ایک لڑکی احمدی نژاد کی گاڑی پر چھلانگ مارتی ہوئی دیکھی جاسکتی ہے دنیا بھر میں بہت مقبول ہورہی ہے ۔
(trg)="1.3"> ایرانی صدر جناب احمد نژاد ۱۰ اپریل ۲۰۱۲ کو ایران کے جنوب میں واقعہ ساحلی شہر بند عباس کے دورے پر آئے تھے ۔

(src)="2.1"> تحدثت الشابة مع الرئيس لبرهة من الزمن في الوقت الذي كان يحيط بسيارته العديد من المتفرجين .
(trg)="2.1"> اس نوجوان لڑکی نے صدر سے کچھ لمحہ بات کی اور بھر گاڑی کے گرد لوگوں کا حجوم اکھٹا ہوگیا ۔

(src)="2.2"> في الغضون ، حاول عجوز أيضاً الاقتراب من نجاد ، وصرخ ، " أحمدي نجاد ، أنا جائع !
(trg)="2.3"> اس نے کہا ، " احمدی نژاد میں بھوکا ہوں !

(src)="2.3"> أحمدي نجاد ، أنا جائع " تابع أحمدي نجاد الابتسام والتلويح بيديه من على فتحة السقف للسيارة .
(trg)="2.5"> " احمدی نژاد ہنستے رہے اور گاڑی کی چھت میں سے ہاتھ لہراتے رہے ۔

(src)="3.1"> وما يثير الفضول ، أنه بينما تحدثت وسائل الإعلام الغربية عن الفتاة باستفاضة ، ركز المدونون الإيرانيون على العجوز الجائع .
(trg)="3.1"> حیرت انگیز طور پر کہ جب مغربی میڈیا اس لڑکی کے بارے میں بحث کررہا تھا ، ایرانی بلاگرز اس بھوکے آدمی پر توجہ دے رہے تھے ۔

(src)="4.1"> قال كراندسدر :
(trg)="4.1"> کران صدر کہتے ہیں :

(src)="4.2"> يرينا هذا الرجل الذي صرخ " أنا جائع ، أنا متقاعد " أن جميع وعود أحمدي نجاد كاذبة .
(trg)="4.2"> یہ بوڑا آدمی جو " میں بھوکا ہوں ، میں ریٹائرڈ ہوں " چلا رہا ہے ، اس چیز کا ثبوت ہے کہ احمدی نژاد کے وعدے جھوٹے تھے ۔

(src)="4.3"> ما زلنا نذكر عندما قال أن إيران هي البلد الوحيد الذي ليس فيه جوع .
(trg)="4.3"> ہمیں آج بھی یاد ہے جب انھوں نے کہا تھآ کہ ایران دنیا کا واحد ملک ہے جہاں غذہ کا مسئلہ نہیں ۔

(src)="4.4"> باباك داد كتب في تدوينة :
(trg)="4.4"> بابک داد لکھتے ہیں :

(src)="4.5"> في يوم ما ، سوف يسألنا هؤلاء الناس ، " ماذا كنتم تفعلون عندما كنا نعاني من الجوع ؟ " " هل سنملك جواباً ؟ " لدي شكوك .
(trg)="4.5"> ایک دن لوگ ہم سے پوچھیں گے ، " آپ کیا کررہے تھے جب ہم بھوکے تھے ؟ " کیا ہمارے پاس کوئی جواب ہے ؟ مجھے شک ہے کہ ہمارے پاس نہیں ہے ۔

# ar/2012_10_06_26097_.xml.gz
# ur/2012_04_24_571_.xml.gz


(src)="1.1"> البحرين : مظاهرة المرأة الواحدة
(trg)="1.1"> بحرین : ایک عورت کا احتجاج !

(src)="1.2"> هذا المقال جزء من تغطيتنا الخاصة باحتجاجات البحرين2011
(trg)="2.1"> یہ مضمون ہماری بحرین میں ہونے والے احتجاج ( ۲۰۱۱ ) پر خصوصی نشر و تشہیر کا حصہ ہے ۔

(src)="2.1"> منذ أندلاع الثورات في العالم العربي ، أصبحنا معتادين على أن نرى هذه الصورة لتجمع الآف المحتجين في الشوارع والميادين .
(trg)="3.1"> جب سے عرب دنیا میں انقلاب شروع ہوا ہے ، ہم تصویروں میں ہزاروں احتجاجیوں کو چوکوں و گلیوں میں دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں ۔

(src)="3.1"> " وأضيفت شعارات إلى القاموس مثل المظاهرة المليونية ، ومشاهد مثل المشهد بالأسفل أصبح رمزاً من رموز " الربيع العربي
(trg)="4.1"> ملین مارچ جیسے فکرے ہماری لغت کا حصہ بن گئے ہیں ، اور مندرجہ ذیل تصاویر ' عرب انقلاب ' کا عکس بن گئی ہیں ۔

(src)="4.1"> تجمع لمتظاهرين في ميدان التحرير ، القاهرة .
(trg)="5.1"> تحریر اسکائر ، قائرہ میں ایک بڑی ریلی ۔

(src)="4.2"> تصوير نمير جلال ( 25 / 11 / 2011 ) .
(trg)="5.2"> تصویر از نمیر جلال ( ۲۵ / ۱۱ / ۲۰۱۱ ) ۔

(src)="4.3"> حقوق النشر محفوظة لديموتكس .
(trg)="5.3"> Copyright Demotix .

(src)="5.1"> مع ذلك ، يتطلب الأمر شجاعه كبيرة لتكون جزء من مظاهرة صغيرة ، بسبب قلة عدد الناس المشاركين في حماية بعضهم البعض ومع قلة وسائل الإعلام التي ترصد ما يحدث .
(trg)="6.1"> البتہ ، کسی چھوٹے مظاہرے کا حصہ بنے کے لیے زیادہ جرأت چائیے ، جس میں ایک دوسرے کی کمک کے لیے کم لوگوں ہوں اور میڈیا بھی کم خبریں نشر کررہا ہو ۔

(src)="5.2"> فكيف يكون الحال مع متظاهرة واحدة معتصمة بمفردها ، مثل تلك التي في هذه الصورة ؟ .
(trg)="6.2"> تو پھر آپ اس احتجاجی کے بارے میں کیا کہیں گے جو سڑک پر اکیلی احتجاج کررہی ہو ؟

(src)="6.1"> زينب الخواجة خارج مرفأ المالية في المنامة ، البحرين .
(trg)="7.1"> زینب الخواجہ ' فائننشل ہاربر ' کے باہر دورن احتجاج ۔

(src)="6.2"> ( 21 / 4 / 2012 ) .
(trg)="7.2"> ماناما ، بحرین ( ۲۱ / ۴ / ۲۰۱۲ ) ۔

(src)="6.3"> الصورة من حساب @ Kareemasaeed عبر تويتر .
(trg)="7.3"> تصویر از @ Kareemasaeed

(src)="7.1"> زينب الخواجة التي نراها في الصورة بالأعلى حيث تظاهرت بمفردها يوم 21 من أبريل / نيسان ، خارج ميناء المالية بالمنامة ، عاصمة البحرين .
(trg)="8.1"> مندرجہ بالا تصویر میں ماناما ( بحرین کا دارالخلافہ ) کے علاقے ' فائننشل ہاربر ' کے باہر ، زینب الخواجہ ۲۱ اپریل کو دوران احتجاج نظر آرہی ہیں ۔

(src)="7.2"> والدها الناشط البارز في حقوق الإنسان عبد الهادي الخواجة الذي أعتقل في أبريل / نيسان 2011 ، وتم الحكم عليه بعدها بشهرين ، مع بقية زعماء المعارضة ، بالسجن المؤبد .
(trg)="8.2"> ان کے والد ، عبد حادی الخواجہ ، انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن ہیں جن کو ۹ اپریل ۲۰۱۱ کو جیل بھیج دیا گیا اور پھر ۲ مہینوں کے بعد عمر قید کی سزا سنادی گئی ۔

(src)="7.3"> ودخل في إضراب عن الطعام منذ 8 من فبراير / شباط 2012 .
(trg)="8.3"> وہ ۸ فروری ، ۲۰۱۲ سے بھوک ہرتال پر ہیں تاکہ وہ اپنے اوپر ہونے والی بدسلوکی کی طرف توجہ مبذول کروا سکیں ۔

(src)="8.1"> زينب ، التي تغرد تحت اسم @ angryarabiya ، تم أعتقالها بالأمس ، كما أعلنت أختها مريم الخواجة أنها رفضت المثول أمام النيابة العامة .
(trg)="9.1"> زینب جو @ angryarabiya کے لقب سے ٹیوئٹر پر لکھتی ہیں ، کل سے قفس زنداں میں ہیں ۔
(trg)="9.2"> ان کی بہن مریم الخواجہ کہتی ہیں کے انھوں نے عوامی استغاثہ سے انکار کردیا ہے ۔

(src)="8.2"> جدير بالذكر أنها ليست المرة الأولى التي تعتقل فيها زينب ، أو تعتصم وتحتج بمفردها .
(trg)="9.3"> یہ قابل ذکر بات ہے کہ یہ زینب الخواجہ کی پہلی گرفتاری نہیں ہے اور نا ہی انھوں نے پہلی دفا اکیلے احتجاج کیا ہے ۔

(src)="8.4"> عندما تجد نفسك مُقيد ، تعيش بلا كرامة أو حقوق ، وتخضع لديكتاتور مجرم ، أول ما يجب أن تفعله هو أن تنسى مخاوفك وتدرك أن من حقك .
(trg)="10.2"> میرے خیال میں اس سوال کا بہترین جواب ٹیوئٹر پر موجود ان کی مختصر سوانج حیات سے بہتر کوئی نہیں دے سکتا ۔

# ar/2012_04_29_21620_.xml.gz
# ur/2012_05_05_625_.xml.gz


(src)="1.1"> هل يكره الرجال العرب النساء ؟ منى الطحاوي تواجه عاصفة نارية
(trg)="2.2"> ان کا یہ مضمون ۲۳ اپریل ۲۰۱۲ کو فارن افئیر میگزین میں شائع ہوا ۔

(src)="1.2"> أثارت الكاتبة المصرية الأمريكية ، منى الطحاوي ، مرة أخرى ، جدلا بمقالها الذي نشر في مجلة فورين بوليسي ( السياسة الخارجية ) بتاريخ 23 أبريل / نيسان 2012 ، تحت عنوان " لماذا يكرهوننا ؟ " حول التمييز ضد المرأة في منطقة الشرق الأوسط .
(trg)="2.3"> مضمون کا عنوان ہے " وہ ہم سے نفرت کیوں کرتےہیں ؟ " اور مرکزی خیال مشرق وسطیٰ میں عورتوں کے خلاف ہونے والا تعصب ہے ۔

(src)="1.3"> وفقا لمنى ، فإن المجتمعات العربية تكره النساء بالأساس وتسيئ معاملتها بلا حدود ، " نتيجة مزيج سام من الثقافة والدين " .
(trg)="2.4"> الطحاوا لکھتی ہیں کہ عرب معاشرہ بنیادی طور پر ' عورتوں سے نفرت ' کرتا ہے اور عورتوں پر مسلسل ظلم کرتا ہے ۔

(src)="3.1"> وقد نشرت فورين بوليسي حينها ردود خمسة معلقين .
(trg)="4.1"> فارن افئیر میگزین نے اب تک اس مضمون پر پانچ لوگوں کے تاثٔرات شائع کیے ہیں ۔

(src)="4.1"> كتبت منى الطحاوي في المقال :
(trg)="6.1"> الطحاوا اپنے مضمون میں لکھتی ہیں :

(src)="4.2"> قد يتساءل البعض لماذا أتحدث عن ذلك الآن ، في وقت تتصاعد فيه الاحتجاجات بالمنطقة ، ليس نتيجة الكراهية المعتادة لأمريكا وإسرائيل ، ولكن من أجل المطالبة الجماعية بالحرية .
(trg)="6.2"> کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ میں اس وقت اس مسئلہ پر بات کیوں کررہی ہوں ، جبکہ عوام آمریکہ اور اسرائیل سے نفرت کیلیے نہیں بلکہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں ۔

(src)="4.3"> بعد كل ذلك ، ألا ينبغي أن يحصل الجميع على الحقوق الأساسية أولاً ، قبل أن تطالب النساء بمعاملة خاصة ؟ وما علاقة النوع ، أو بالنسبة لهذا الأمر ، الجنس ، بالربيع العربي ؟ ولكنني لا أتحدث عن الجنس المخبأ بعيدا في الزوايا المظلمة وغرف النوم المغلقة .
(trg)="6.3"> کیا لوگوں کو بنیادی حقوق ، عورتوں کے حقوق سے زیادہ اہم ہیں ؟ اور ' عرب انقلاب ' سے جنس کا کیا تعلق ؟ مگر میں اس جنس کی بات نہیں کررہی جو کمروں میں بند کردیا گیا ہے ۔

(src)="5.1"> منى الطحاوي ، تصوير personaldemocracy على فليكر ، مستخدمة تحت رخصة المشاع الإبداعي .
(trg)="6.4"> اس پورے سیاسی اور معاشی نظام کو تباہ کردینا چاہیے جو آدھی آبادی کو جانور سمجھتا ہے ۔

(src)="6.1"> في مقال آخر بعنوان " منى : لماذا تكرهيننا ؟ " ، كتبت الناشطة المصرية والمدونة جيجي إبراهيم :
(trg)="6.7"> ایک مضمون جس کا عنوان ہے ، " مونا : تم ہم سے نفرت کیوں کرتی ہو ؟ " ، اس مضمون مین مصری بلاگر اور کارکن گیگی ابرائیم لکھتا ہے :

(src)="6.2"> المشكلة الأساسية المتمثلة في مقال منى هو السياق والإطار الذي حللت من خلاله لماذا تظلم المرأة في الشرق الأوسط ، والسبب الوحيد الذي يمكن أن يفسر ذلك هو لأن الرجال والمجتمعات العربية ( ثقافيا ودينيا ) تكره النساء .
(trg)="6.8"> مونا کے مضمون کا بنیادی مسئلہ ان کا تجزیہ کرنے کا طریقہ ہے ۔
(trg)="6.9"> ان کے نزدیک مشرق وسطیٰ میں عورتوں پر جبر کی وجہ صرف مرد اور عرب معاشرے ( فرھنگ اور مذہب ) کا عورتوں سے نفرت کرنا ہے ۔

(src)="6.3"> وقد كان ذلك مهينا لمعظم النساء اللاتي أعرفهن ، وقرأن المقالة وشاركنني الرأي نفسه .
(trg)="6.10"> یہ تبصرہ ، کئی عورتوں جن کو میں خود جانتا ہوں ہوں پر ناگوار گزرا ہے ۔

(src)="6.4"> لا تعاني المرأة في الشرق الأوسط من الاضطهاد من جانب الرجال نتيجة فقط هيمنة الذكور ، ولكنها مضطهدة من قبل الأنظمة ( وهم من الرجال في السلطة ) ، ونظم الاستغلال ( التي تستغل على أساس طبقي لا نوعي ) .
(trg)="6.11"> مشرق وسطیٰ میں جبر کی اصل وجہ ' مرد حاکمیت ' نہیں ہے بلکہ جابر حکومت ہے جس کو عام طور پر مرد کنٹرول کرتے ہیں اور دوسری وجہ استحصالی نظام ہے جو طبقہ کی بنیاد پر استحصال کرتا ہے ، ناکہ جنس کی بنیاد پر ۔

(src)="6.5"> وجود المرأة في مواقع السلطة في ظل نظام معيب " لا يحل " المشكلة أيضا .
(trg)="6.12"> اس ' ٹوٹے ہوئے نظام میں عورتوں کے آجانے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا ۔

(src)="6.6"> في برلمان مبارك ، كان لدينا حصة للنساء ، ولكن هل غير ذلك في الواقع أي شيء بالنسبة للمرأة ؟ ظل الأمر حبرا على ورق .
(trg)="6.13"> مبارک کی پالیمنٹ میں عورتوں کی لیے کرسیاں مختص تھی ، اس سے کیا فرق پڑا ؟ یہ سب کاغذی کام تھا ۔

(src)="6.7"> حتى بعد الثورة ، تستخدم الأحزاب السياسية الصديقة النساء على الدوام لأسباب سياسية .
(trg)="6.14"> حتی کہ انقلاب کے بعد بھی ، امیر سیاسی جماعتیں عورتوں کے مسئلہ کو سیاست میں استعمال کررہی ہیں ۔

(src)="6.8"> تفسير سبب قمع النساء دون التعرض لأي من الجوانب التاريخية والسياسية ، أو الاقتصادية للبلدان العربية ، والتي لا تتساوى كما تميل إلى التعميم في مقالها ، لا يمكن أن يكون أكثر تضليلا من هذه المقالة .
(trg)="6.15"> عرب کے ان تاریخی ، سیاسی اور معاشی مسائل کو سمجھے بغیر عورتوں پر ہونے والے جبر پر لکھنا تنگ نظری ہے ۔

(src)="6.10"> حفصة حلاوة من مصر لا تعارض المقالة بشكل كامل :
(trg)="6.17"> مصر میں حفصہ حالاوا مکمل طور پر اس مضمون کے خلاف نہیں :

(src)="6.11"> @ Hhafoos : رغم أنني لا أتفق مع لهجتها وبالتأكيد لا أوافق على الصور المستخدمة ، ولكن هناك حقائق في مقال منى الطحاوي لا نستطيع أن نتجاهلها بعد الآن .
(trg)="6.18"> @ حفصہ حالاوا : اگرچہ میں ان کے لکھنے کے طریقے سے متفق نہیں اور نا میں ان تصویروں سے ، مگر مونا الطحاوا کے مضمون میں چند حقائق ایسے ہیں جن کو پسِ پوشت نہیں ڈالا کاسکتا ۔

(src)="6.12"> الصحفية الفلسطينية ، سورية المولد ، ديما الخطيب ، أدلت أيضا بدلوها بمقالة على مدونتها ، " الحب ، وليس الكراهية ، عزيزتي منى " :
(trg)="6.19"> شامی نژاد فلسطینی صحافی ڈیما خاطب اپنے بلاگ مضمون " نفرت نہیں ، پیار مونا !